طاہر سواتی
یہ کوئی حقوق کی جنگ نہیں کھلم کھلا دھشت گردی ہے ، اور دھشت گردی کی ہر شکل قابلٗ مذمت اور لائق نفرت ہے چاہے اس کی بنیادی وجہ کچھ بھی ہو۔ اسی طرح اگر مذہب کی بنیاد پر ریاست کے خلاف بندوق اٹھانے والا دھشت گرد ہے ،تو قومیت رنگ ، نسل ، قومیت یا زبان کے نام پر سویلین معصوم لوگوں کو اغوا اور قتل کرنے والا حریت پسند یا عسکریت پسند کیسے کہلایا جاسکتا ہے ۔
اور جس طرح تالبان کے بربریت پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے والے مذہبی رہنما ان کے ساتھی اور پشت بانُ شمار ہوتے ہیں اسی طرح بی ایل اے جیسی تنظیموں کی دھشت گردانہ کاروائیوں کی مذمت نہ کرنے والے ان ہی کے ساتھی ہیں ،چاہے وہ کوئی ماہ رنگ بلوچ جیسی رنگ باز ہو ،حامد میر جیسا کوئی منافق یا مینگل کی طرح کوئی خود ساختہ کامریڈ۔
میں تو اس باچا خان کا پیروکار ہوں جس نے بابڑہ میں سات سو سے زائد معصوم لوگوں کے قتل عام پر بھی عدم تشدد کا راستہ نہیں چھوڑا۔ لیکن ضیاءالحق کے دور آمریت میں اسی شام ایم آر ڈی جیسی تنظیم کو چھوڑنے کا اعلان کردیا جب کچھ جیالوں نے اندرون سندھ میں سیکوئیُ فورسسز پرُ حملے شروع کئے ۔
بندوق اٹھاکر اور تشدد کا راستہ اپنا آپ اپنے سارے اخلاقی اور جمہوری حقوق خود کھو دیتے ہیں ۔
حقوق کے حصول کا پہلا اور آخری راستہ صرف جمہوریت ہے۔اختر مینگل جیسے لارڈز بتائیں کہ انہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں جمہوری شعور کو بیدار کرنے میں کتنا کردار ادا کیا ہے۔
یہ عالمی کھیل ہے ، ٹرمپ کے آنے کے بعد چین اور سی پیک کے خلاف صف بندی ہورہی ہے۔
سی پیک کے خلاف جب باقی ساری سازشی کردار ناکامی سے دو چار ہوئے تو شظرںج کے کھلاڑی ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسے پیادوں کو میدان میں لے آئے ۔
اس جنگ میں جیت کس کی ہوتی ہے فی الحال کچھ کہنا قبل ازوقت ہے ۔ لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سی پیک کی ناکامی ، پاکستان کی شکست اور بی ایل اے جیسوں کی جیت کے نتیجے میں بلوچ عوام کو کچھ نہیں ملنے والا ، بلکہ جو کچھ پاس ہے وہ بھی کھو دیں گے ۔ اگر نفرت اور تشدد سے حقوق مل رہے ہوتے تو نصف صدی بعد بھی بنگالی سڑکوں پر ذلیل نہ ہورہے ہوتے ۔
واپس کریں