طاہر سواتی
اس ڈکٹیٹر ایوب کا مارشلُ تھا جس کا پوتا عمر ایوب آج کل انقلابی پارٹی کا لیڈر بنا پھرتا ہے۔ پابندی کے خاتمے کے بعد بھاٹی گیٹ میں جماعت اسلامی کا کل پاکستان اجتماعِ عام منعقد ہورہا تھا۔ ڈکٹیٹر نے اجتماع پر غنڈوں سے حملہ کروادیا ۔ فائرنگ سے جماعت کا کارکن اللہ بخش شہید ہو گیا ،مولانا مودودی سے کہا گیا کہ آپ بیٹھ جائیں۔مولانا نے تاریخی جملہ کہا، “میں بیٹھ گیا تو کھڑا کون رہے گا”
بھٹو کا دور تھا ۔لیاقت باغ میں ولی خان بابا کے جلسے پر گولیاں چلائی گئیں۔ کسی نے ان سے کہا کہ اپنا سر جھکا لیں تاکہ محفوظ رہیں، انہوں نے جواب دیا، ’’اگر میں سر جھکا لوں گا تو اپنے کارکنوں کو حوصلہ کیسے دوں گا”
لاشوں سے بھرا ٹرک پشاور لیکر گئے ۔
بینظیر بھٹو اپنے معصوم بچوں کے ساتھ دھرنوں میں شریک ہوتی تھی۔ کارساز پر قاتلانہ حملہ ہوا پھر بھی باز نہ آئی آخر کار لیاقت باغ میں شہید کرنا پڑا ۔
مشرف کے مارشل لا میں شیخ رشید اور مشاہد حسن جیسے ڈکٹیٹر کے گود میں بیٹھ گئے ، گھر کے سارے مرد گرفتار تھے لیکن کلثومُ نواز اکیلے میدان میں نکل پڑی ۔
قاضی حسین احمد ہر دھرنے میں فرنٹ لائن پر بیٹھے ہوتے تھے۔
یہ ہوتے ہیں لیڈر ۔
آپ ان کی سیاست سے اختلاف کرسکتے یا اختلاف لیکن یہ سب عمرانُ نیازی جیسے نامتو لیڈر اور اس کے نام نہاد
جنگجؤں سے کئی گنا بہادر تھے۔ یہاں خیبر پختونخواہ کے پاگلوں کے علاوہ کارکن بھی تینوں صوبوں کے ان لائن فائر نگ کرتے رہے ۔
گنڈا پور اور پورنی کے علاوہ لیڈر شپ غائب رہی ۔
اور وہ دونوں بھی عینُ موقع پر کارکنوں کو لاوارث چھوڑ کر بھاگ گئے ۔
یہ دونوں میدان میں ڈٹے رہتے اور کم ازکم ایک لاش ساتھ لے جاتے تو منظر نامہ بدل جاتا ۔
لیکن فوجی بینڈ پر ناچنے والے کبھی جمہوری انقلاب نہیں لاسکتے۔
لعنت ہو ان ججوں اور جرنیلوں پر جنہوں مکر ، فریب اور دجل سے بھرپور اس فتنے کی آبیاری کی
واپس کریں