طاہر سواتی
۵ اکتوبر کو ہونے والے احتجاج پر حکومتی خزانے سے مجموعی طور پر ۸۱۰ ملین یعنی ۸۱ کروڑ روپے سے زائد خرچ کیے گئے۔ اس میں سے ۲۳۰ میلین اڈوانس میں ادا کئے جاچکے ہیں جبکہ بقایا ۵۸۰ میلین کی ادائیگی کے لئے آج خیبر پختونخوا کے محکمہ خزانہ نے چیف سیکریٹری خیبر پختونخوا کو درخواست دے دی ہے ۔
اس یلغار کو روکنے کے لئے وفاقی حکومت نے جو اخراجات کئے وہ اس کے علاوہ ہیں ۔
۲۴ نومبر کا خرچہ اس سے بھی ڈبل پڑ رہا ہے۔
یہ اس صوبے کی صورتحال ہے جہاں یونیورسٹیاں فنڈ کی کمی کی وجہ سے بند کی جارہی ہیں ۔ صحت اور امن امان کی صورت حال ابتر ہے ۔ وزیر اعلیٰ اور صوبائی حکومت کی گزشتہ ۷ ماہ کی کارکردگی ایک یلغار سے واپسی کے بعد دوسرے کی تیاری ہے۔
نہ شعور کے دعویدار یوتھئیے اپنی صوبائی حکومت کی کاکردگی پر سوال اٹھاتے ہیں ۔
نہ پانامہ کے ہیرے جج اس پر کوئی ایکشن لیتے ہیں۔
یاد رہے جنرل باجوہ نے اپنے دور میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ اورنج لائن پراجکٹ پیسے کا ضیاع ہے ۔
پاکستان کو اس قسم کی میگا پراجیکٹس کی ضرورت نہیں تھی ۔اب حب الوطنی سے سرشار باجوہ کے باقیات کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔
آج بھی صحافتی دلالوں کی ساری تنقید مریم نواز کے اوپر ہے ، کہ اس کو یہ کرنا چاہئے اور یہ نہیں کرنا چاہئے ۔ کسی مائی کے لعل میں اتنی ہمت نہیں کہ اب اس پر کوئی ٹاک شو کردےاور قوم کو بتائے کہ ان ۸۱۰ میلین روپوں سے کتنے اسکول اور ہاسپیٹل بنائے جاسکتے ہیں ،
کتنے بیماروں کو مفت دوائی دی جاسکتی ہے ۔
کتنی بھوکوں کو کھانا کھلایا جاسکتا ہے ۔
اس ملک کی عوامُ کو ، اس کے ججوں اور جرنیلوں کو اور مردار کے ٹکڑوں پر پلنے والے صحافیوں اور ملاؤں کو عمران نیازی جیسا بہروپیا ہی سوٹ کرتا ہے ۔
جوشیخ چلی کی طرح صرف ہوائی قلعے تعمیر کروائے ۔
باقی خود بھی کچکول ہاتھ اٹھاکر مانگے اور ان سب کو بھی مانگنے پر لگا دے ۔
واپس کریں