طاہر سواتی
اظہار رائے کی آزادی کے لحاظ سے دنیا کو تین درجوں میںُ تقسیم کیا جاسکتا ہے۔پہلے درجے میں وہ ممالک آتے ہیں جہاں اپنی مرضی سے کچھ بھی کہنے کی اجازت نہیں ۔ جہاں اظہار رائے کی بجائے “ اتفاق رائے “ کو پسند کیا جاتا ہے۔ سرکار امام آپ مقتدی ،خاموشی سے سننا اور آخر میں آمین کہناہے۔ حکمران اور ان کے وزیر مشیر تو دور کی بات ہے آپ کچرا اٹھانے والی بلدیہ پر بھی تنقید نہیں کرسکتے۔شمالی کوریا، روس ، ایران، افغانستان، عرب ممالک اور کچھ افریقی ممالک میں یہی دستور رائج ہے۔
دوسرے درجے میں وہ ممالک آتے ہیں جہاں سب کچھ کہنے کی آزادی ہے۔ نہ کوئی اخلاقی دائرہ ہے نہ ذاتی زندگی اور انسانی عزت نفس کے حدود متعین ہیں۔
پاکستان ان ممالک میں سرفہرست ہے۔
بس ایک کیمرہ اور مائیک ہونا چاہئے۔
اس کے بعد اقرارلحسن جیسوں کو روکنے والا کوئی نہیں ۔
آپ کسی کی عزت اچھالیں ، کسی کی چادر اور چاردیوری پامال کریں ، کسی پر جھوٹا بہتان لگا کر اس کی زندگی عذاب بنادیں ایک یوتھڑ ڈاکٹر کی طرح جھوٹی خبر کے ذریعے تربوزوں کی پوری فصل تباہ کردیں ،
یا حامد میر کی طرح الیکشن کمیشن سے پہلے غلط نتائج نشر کرکے پورا انتخابی عمل متنازع بنادیں ۔ آپ سے کوئی سوال کرے تو وہ اظہار رائے کی آزادی کا دشمن ہے۔
تیسرے درجے میں برطانیہ ، فرانس ، امریکہ ، کینڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ سمیت زیادہ تر جمہوری ممالک شامل ہیں ۔ جہاں اظہار رائے کی آزادی کچھ ذمہ داریوں اور اخلاقی بندشوں کے ساتھ مشروط ہے۔ جہاں آپ نے ان حدود کو پار کرلیا آپ کی آزادی ختم ہوگئی۔
پھر آپ بیشک امریکہ جیسے ملک کے صدر ٹرمپ کیوں نہ ہوں آپ کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ تاحیات بند کردیا جاتا ہے ۔
آپ کسی ذاتی زندگی میں مداخلت نہیں کرسکتے۔
بلا ثبوت کسی پر الزام نہیں لگا سکتے۔ ورنہ لینے کے دینے پڑیں گے ۔ اے آر وائی اور ۹۲ نیوز جیسے ماپدر آزاد میڈیا چینلز جو گزشتہ ایک عشرے سے پاکستان میں گمراہی پھیلا رہے ہیں وہ برطانیہ میں جھوٹے الزامات کے پاداش میں جرمانے بھرتے رہے ہیں ۔ یا ان کو اپنی نشریات بند کرنی پڑتی ہیں ۔
آپ لسانی ، مذہبی یا نسلی بنیاد پر نفرت نہیں پھیلا سکتے ۔ آپ کسی کے جسمانی معذوری کا مذاق نہیں اڑا سکے ، کسی جائے حادثہ کی فوٹوگرافی نہیں کرسکتے۔
برطانیہ میں جب بچہ اسکول میں داخل ہوتا ہے تو اس کے والدین کو ایک فارم بھرنے کے لئے دیا جاتا ہے جس میں کوئی پچاس سے زائد سولات کے جوابات “ہاں “ یا “ ناں “ میں دینے ہوتے ہیں ،
مثلا اسکول کے کسی تقریب میں آپ کے بچے کی تصویر کچھوائی جاسکتی ہے؟
اس تصویر کو اسکول کے رسالے میں چھپوایا جاسکتا ہے؟
اس کو اسکول کے سوشل میڈیا پیج جیسے انسٹاگرام یا فیس بک پر شئیر کیا جاسکتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ
یعنی تعلیمی ادارے بھی آپ کے بچے کی ذاتی زندگی میں مداخلت کے مجاز نہیں ۔
کچھ عرصہ قبل ٹک ٹک پر ایک پاکستانی ویڈیو دیکھی جس میں باوردی پولیس والا بڑے فخر سے سر راہ جاتے ہوئے لڑکیوں کی ویڈیو بنا رہا تھا۔ مہذب دنیا میں اس قسم کی حرکت پر نوکری جانے کے ساتھ دو چار سال قید بھی مل سکتی ہے۔
حالیہ فسادات برطانیہ کے لئے ۹ مئی کی حثیت رکھتے ہیں ۔ جس میں سوشل میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈے کے اثرات بھی سامنے آئے۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر جھوٹی خبر پھیلانے کے جرم میں لاہور سے ایک پاکستانی بھی گرفتار ہوچکا ہے۔
برطانوی پولیس کے مطابق فسادات کی بنیادی وجہ کالعدم انگلش ڈیفینس لیگ کے عہدیداروں کے وہ ہائی پروفائل سوشل میڈیا اکاؤنٹ تھے جن کو بین کردیا گیا تھا لیکن ایلن مسک نے ٹویٹر خریدتے ہی اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ٹرمپ کے اکاؤنٹ کے ساتھ ساتھ یہ اکاؤنٹ بھی بحال کردئیے۔
اس سلسلے میں برطانوی وزیر اعظم سر کئیر سٹارمر اور ایلن مسک کا سوشل میڈیا پر ٹاکرا بھی سامنے آیا ۔
ایلن مسک نے برطانیہ کو اظہار رائے کو دبانے والا پولیس اسٹیٹ کہہ ڈالا جبکہ برطانوی وزیر اعظم کا موقف تھا کہ آزادی اظہار رائے اور تشدد دو الگ چیزیں ہیں کسی بھی قسم کے تشدد کے لئے جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے فسادات کو غنڈہ گردی قرار دیا۔ سیکرٹری داخلہ نے فسادات کرنے والوں کو قید کے ساتھ ساتھ سفری پابندیوں کا بھی عندیہ دیا۔
برطانوی ججوں نے سڑک کے کنارے کھڑے تماشائوں کی ضمانتیں بھی خارج کردیں۔
دی گارڈین میں ٹوئٹر کے سابق سی او کا بیان سامنے آیا کہ اگر ایلن مسک اظہار رائے کی آزادی کے نام پر فسادیوں کی حمایت کرتے ہیں تو برطانیہ اس کی وارنٹ گرفتاری جاری کردے ۔
برازیل سپریم کورٹ کے جج نے ٹویٹر کو وہ اکاؤنٹس معطل کرنے کا حکم دیا تھا جو سابق پاپولسٹ صدر کے حامی تھے اور فیک نیوز پھیلاتے تھے جس کے نتیجے میں اسکے حامیوں نے برازیل پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور ایوان صدر پر حملہ کیا تھا۔
ایلن مسک نے اظہار رائے کی آزادی کے نام پر وہ تمام اکاؤنٹ بحال کردئیے تو جواب میں برازیل حکومت نے پورے ملک میں ٹوئٹر یعنی ایکس پر پابندی عائد کردی ۔
ہمارے ہاں جس فسادی نے پی ٹی وی اور پارلیمان پر حملے کی قیادت کی ہم نے اسے صدر پاکستان بنایا ۔ جو سر عام جلاؤ گھیراؤ کے نعرے لگاتا تھا اس شیخ رشید کو وفاقی وزارت دی اور جو سب کا سرغنہ تھا اسے ریاست مدینہ کی امارت سونپ دی۔
اب ڈیجیٹل دہ شتگردی کا رونا رو رہے ہیں ۔
جن ججوں نے ۹ مئی میں ملوث بلوائیوں کو ضمانتوں پر ضمانتیں دی وہ بھی ماتمی خطوط لکھ کر آزادی اظہار رائے کی شہیدوں میں اپنا نام لکھوا رہے ہیں ۔
اب آپ بتائیں آپ کو آزادی اظہار رائے کا کون سا ماڈل پسند ہے تاکہ اس لحاظ سے اگلی پوسٹ میں فائر وال کے فوائد اور نقصانات بتا سکوں ۔
واپس کریں