طاہر سواتی
بلوچ لیبریشن آرمی کے دہشت گردوں نے ۳۹ لوگوں کا قتل عام کیا ، ان میں سے ۲۳ ایسے مسافر تھے جن کو پنجابی تشخص کے بعد قتل کردیا گیا ،تشدد کے لئے کوئی بھی جواز تلاش نہیں کیا جاسکتا ۔ یہی باچا خان کا فلسفہ عدم تشدد تھا۔آمریت اس لئے قبل مزمت ہے کہ اس میں قانون کی بجائے طاقت اور بندوق کی حکمرانی ہوتی ہے۔
اگر وردی والا بندوق بردار قابل مذمت ہے تو شریعت اور قومیت کے نام پر بندوق برداروں کی حمایت کیسی کی جاسکتی ہے۔بندوق اٹھاکر آپ اپنے بنیادی جمہوری حقوق کی خود نفی کرتےہیں۔
اگر کسی پختون و بلوچ سے کراچی یا پنجاب میں شناخت کی بنیاد پر نفرت ناقابل برداشت ہے تو بلوچستان کی سرزمین پر پنجابی شناخت کی بنیاد پر قتل عام کے لئے کوئی جواز تلاش نہیں کیا جاسکتا ۔
بلوچوں کے حقوق اگر عام پنجابیوں نے عصب کئے ہوتے تو وہ بلوچستان میں کوئلہ کے کانوں میں مزدوری کرنے کبھی نہ جاتے ،
اس ملک پر آمروں نے بلاواسطہ یا بلاواسطہ حکمرانی کی ، جس میں پنجابیوں کے ساتھ ساتھ پشتون، بلوچ اور سندھی یا اردو بولنے والے آمر بھی شامل تھے ۔
ایوب خان اور یحییٰ خان پشتون تھے ، ضیا الحق جالندھر کے مہاجر اور بلوچستان کو آگ و خون میں دھکیلنے والا ڈکٹیٹر مشرف کوئی پنجابی نہیں اردو اسپیکر تھا۔
اسی طرح پنجاب کی طرح ہر قوم کی اشرافیہ اور جاگیرداروں نے اپنے فائدے کے لئے آمروں کا ساتھ دیا۔ اس میں ایک جانب اگر گجرات کے چودھری اور ملتان کے قریشی ہیں تو دوسری جانب میر ظفراللہ خان جمالی ، کاکڑ اور سرفراز بگتی جیسوں کا تعلق بلوچستان سے تھا۔
یہاں سینٹ کا چئرمین بلوچ ، چیف جسٹس بلوچ ، صدر بلوچ، نگران وزیر اعظم بلوچ لیکن پھر بھی حقوق کا رونا۔
بھارت میں ہم سے زیادہ قومیتوں آباد ہے، وہاں جمہوریت نے سب کو یکجا کیا ہوا ہے۔
یہاں بھی ہر قوم کے حقوق ایک مضبوط جمہوری نظام میں ممکن ہے ۔ ۷۷ برسوں میں مسلح جدوجہد سے آپ کو وہ حقوق حاصل نہ کر پائے جو صرف اٹھارویں ترمیم نے آپ کو دیئے۔
لیکن حقیت یہی ہے کہ اس ملک میں سی پیک اور اینٹی سی پیک قوتوں کا ٹاکرا ہے۔ فتنہ اور اس کا اہم مہرہ گرفتار ہے لیکن پینٹاگون کے تنخواہ دار اب بھی مصرف عمل ہیں ، آپ دیکھیں گے کبھی گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کے نام پر کشیدگی ہوگی تو کبھی بلوچستان میں آگ اور خون کا کھیل جاری رہے گا۔
واپس کریں