دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
طارق کے بال و پر
طاہر سواتی
طاہر سواتی
میری بڑی بیٹی تعلیمی میدان میں اعلی کارکردگی کے ساتھ ساتھ ایک کمال کی آرٹسٹ بھی ہے۔ساتویں جماعت میں اس نے پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے یوم پاکستان کی مناسبت سے آرٹس مقابلے میں پہلا انعام جیتا تھا۔لیکن آٹھویں جماعت میں اچانک نہُ صرف اس کی تعلیمی کارکردگی خراب ہونا شروع ہوگئی بلکہ چپ چپ سے رہنے لگی ، ماں نے جاننے کی کوشش کی لیکن ناکام ،آخر ایک دن خود میرے سامنے زار و قطار رو کر کہنے لگی کہ “ میں بہت گناہگار ہوں ، ہم سب جہنم میں جائیں گے ، اس پڑھائی لکھائی کا کیا فائدہ ، یہ اچھے کپڑے اور جوتے کس کام کے،جب پڑھتی ہوں تو جہنم سامنے نظر آتا ہے ، نماز پڑھتے ہوئے بھی خیال آتا ہے کہ اگر قبول نہ ہوئی تو اتنے ہزار سال جہنم کی آگ بھی جھلسنا ہے ، وغیرہ وغیرہ “
پتہ چلا کہ اس کی کلاس فیلو لڑکی طارق جمیل کی فین تھی اور دونوں ملکر اس کے بیانات سنتی تھیں ۔
المختصر اس قومے سے نکالنے میں ہمیں ایک سال لگا ،
خود قرآن مجید باترجمہ پڑھانا شروع کیا اور اللہ کے رحمان و رحیم والے صفات بتائے۔
یہ تو میری اپنے گھر کی کہانی ہے۔
میرے کتنے ذاتی دوست ایسے ہیں جنہوں نے اس مولوی کی بیانات کی وجہ سے ترک دنیا اختیار کی۔
خود اس نوٹنکی کی خود دنیا سے بے رغبتی کی یہ حالت ہے کہ ۷۱ سال کی عمر میں نئے بال لگوا لئے ،
جب ۲۹ اکتوبر ۲۰۲۳ کو طارق جمیل کے بیٹے نے خودکشی کی اس نے اعلان کیا تھا کہ
“جو زخم لگا ہے وہ بہت گہرا ہے، اتنی جلدی نہیں بھرے گا، دنیا سے اعتبار اٹھ گیا ہے اب بس زندگی کے دن پورے کررہا ہوں “
اور حالت یہ ہے کہ اس سانحے کو سال بھی نہیں گزرا اور مولوی کو جوانی چڑھ گئی ہے۔
مجھے تو یہ کہانی اس سے آگے کی لگ رہی ہے۔ کیونکہ جس خالی میدان میں مولوی نے بال کاشت کئے ہیں وہ تو ویسے بھی عمامے میں ڈھکا ہوتا ہے۔
کسی نئے شب عروسی منانے کی تیاری ہورہی ہے۔
طاہر القادری ، طارق جمیل ، فضل الرحمان ، ابتسام ظہیر ، طارق مسعود، تقی عثمانی ،منظور مینگل، ، عدنان کاکاخیل ، الیاس قادری، اور یا مقبول جان، خلیل قمر ، خادم گالوی ، سراج الحق ، حافظ نعیم ، دیوبندیوں اور بریلیویوں کے مدارس اور جعلی پیروں نے پوری قوم کو دین کے نام پر ذہنی مریض بنادیا ہے ،
اب تو ان گنجوں کے ہاتھوں سوشل میڈیا کا استرا بھی لگ چکاہے،
وقت کی ضرورت ہے کہ مدارس کا نصاب اور جمعے کا خطبہ ریاست کے کنٹرول میں کردیا جائے ۔
نفرت انگیزی اور شر پھیلانے کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیا جائے ۔
ورنہ ساری زندگی رشوت خوری میں مبتلا ایک پولیس والے کوجب معلوم ہوتا ہے کہ ایک گستاخ کو جہنم واصل کرنے سارے گناہ دھل جاتے ہیں تو پھر کون ممتاز قادری بننا پسند نہیں کریگا ۔
لیکن آپ ممتاز قادری کو تو پھانسی چڑھا دیتے ہیں لیکن مولوی حنیف اور خادمُ رضوی کو نئے ممتاز قادری بنانے کے لیے کھلا چھوڑ دیتے ہیں
واپس کریں