طاہر سواتی
نفرت ایک منفی جزبہ ہے جس کے نتائج کبھی مثبت نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح اندھی عقیدت میں آپ کسی گہری کھائی میں توگر سکتے ہیں کبھی منزل نہیں پاسکتے۔اس کی سب سے بڑی مثال انصافی کلٹ ہیں جو گزشتہ کئی سالوں سے اندھی عقیدت اور شدید نفرت سے لیس صحراؤں میں بٹھک رہے ہیں۔ان کی خیبرپختونخوا میں مسلسل تیسری حکومت نے اسے کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے۔ لیکن آپ کسی انصافی کو غیر مطمئن نہیں دیکھیں گے۔
ہر نفرت اور عقیدت کے پیچھے کچھ حقیقی اور کچھ غیر حقیقی وجوہات ہوتے ہیں ۔
بنگالی قوم کی نفرت کے پیچھے حقیقی وجوہات موجود تھیں جو زیادہ تر آمریت کی پیدا کردہ تھیں لیکن شیخ مجب نے اپنے ذات کے عقیدت کا سحر استعمال کرتے ہوئے اس نفرت کو پنجاب اور مغرب پاکستان کے استعمال کیا۔
اگر بنگالی قوم میں آمریت کے خلاف شعور بیدار ہوتا تو آزادی کے چار سال بعد ہی وہاں فوجی انقلاب نہ آتا۔
جنرل ضیاارحمان اور جنرل حسین ارشاد جیسے ڈکٹیٹر لمبے عرصے تک بنگالی قوم پر حکومت نہ کرتے۔ اور آج پچاس سال بعد ملکی مستقبل کے فیصلے جی ایچ کیو میں نہ ہورہے ہوتے۔
اسی طرح بلوچ کا مسلئہ غلام سے آزادی نہیں۔
عام بلوچی قیام پاکستان سے قبل بھی سرداروں کا غلام تھا اور اگر خدانخواستہ علیحدہ ہوگئے تو پھر بھی سرداروں کے غلام ہی رہیں گے۔ سرداراپنے بچوں کو تو آکسفورڈ اور کیمرج میں پڑھاتے ہیں لیکن عام بلوچ کے بچے کو تعلیم سے دور رکھنے میں ہی ان کی سرداری کی بقا ہے۔
نواب آف دیر خود تعلیم یافتہ تھا لیکن پورے ریاست دیر میں اسکولوں پر پابندی تھی۔
لوگوں رات کی تاریکی میں دریا سوات پار کرکے تھانہ نامی شہر میں پڑھنے جاتے تھے جہاں فرنگیوں نے ۱۹۱۳ میں ہائی اسکول قائم کیا تھا۔
پاکستان کے تمام مسائل کا حل حقیقی جمہوریت میں پوشیدہ ہے۔ اسی سے شعور آئیگا۔ حقوق ملیں گے۔
جو یہاں جمہوریت کو پنپنے نہیں دے رہے وہی آپ کے حقیقی دشمن ہیں ۔
واپس کریں