دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
موروثی سیاست اور خدا کی شان ،
طاہر سواتی
طاہر سواتی
مریم نوا ز کی حلف برداری کے اگلے روز تبدیلی کا مارا ہوا ایک دوست ملنے آیا ۔ آتے ہی کہنے لگا خدا کی شان دیکھیں مریمُ نواز وزیر اعلیٰ بن گئی۔ عرض کیا ہاں جس ملک میں عثمان بزدار اور محمود خان جیسے نابغہ روزگار شخصیات میرٹ کی بنیاد پر وزارت اعلی کے حقدار ٹھہریں وہاں تخت پنجاب مریم نواز کے حوالے کرنا واقعی خدا کی شان ہے۔ناراض ہوگئے۔تابش کے پروگرامُ میں ایک لڑکی نے طلعت حسین سے سوال کیا کہ مریمُ نواز کس اہلیت کی بنیاد پر وزارت اعلی کی حقدار ٹھہری؟
اس قسم کے سوالات آج کل وہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کرتے رہتے ہیں جن کے تاریخ پیدائش سنہ ۲۰۰۰ یا اس کے بعد کی ہے۔ اور وہ اس چیز کو وہ بڑے فخر سے شعور کا نام دیتے ہیں ۔
آئیڈیالزم یہی ہے کہ سیاست میں موروثئیت نہیں ہونی چاہئے حالانکہ آئین میں اس پر کوئی پابندی نہیں ،
لیکن اسی آئین میں جرنیلوں اور ججوں کے لئے سیاست شجر ممنوعہ ہے۔ یہاں جرنیل سیاسی جماعتیں بناتے اور توڑتے رہتے ہیں ۔ایک چیف جسٹس کا بیٹا پیسے پکڑ کر سیاسی جماعت کے ٹکٹ بانٹتا پھرتا ہے۔
ابھی تک کسی باشعور نوجوان نے انہیں شرم دلانے کی کوشش نہیں کی۔ یہاں اخلاقیات کے سارے پیمانے سیاست دانوں کے لئے کیوں ہیں ؟
چودھری نثار کی طرح شاہد خاقان عباسی بھی موروثیت کے خلاف ہیں اور مریم نواز کی قیادت میں کام کرنے کے لئے تیار نہیں، حالانکہ دونوں کی ناراضگی کی اصل وجہ حاکموں کا حکم تھا جس سے سرتابی کی ہمت ان میں نہیں تھی۔
لیکن یہ اصول اس وقت کہاں تھا جب وہ اپنی بہن سعدیہ خاقان عباسی کو سینیٹر بنوا رہے تھے۔اس کی پارٹی کے لئے کیا خدمات تھیں ۔
مریمُ نواز کو سیاسی عہدے سنبھالتے وقت ہمیں موروثی سیاست یاد آجاتی ہے لیکن ہم وہ وقت بھول جاتے ہیں کہ جب مفتاح اسماعیل اور خاقان عباسی فیض کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر باجوہ کے گھر دعوت آڑانے جارہے تھے اسی لمحے مریم نواز باپ کے ہمراہ جیل کے سلاخوں کے پیچھے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی تھی۔ اس وقت مریم نواز کا واحد جرم نوازشریف کی بیٹی ہونا تھا۔
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کو پارٹی چئرمین شپ کے ساتھ جان کی قربانی بھی ورثے میں ملی تھی۔
ہمیں صرف یہ یاد رہتا ہے کہ پارٹی قیادت باچا خان کے بعد ولی خان کے حصے میں کیوں آئی ۔ لیکن ہم ولی خان کی زندگی کے وہ قیمتی لمحات بھول جاتے ہیں جو باپ کی سیاست کی وجہ سے زندان کے نذر ہوگئے ۔ جسے اپنی بیوی کا جنازہ پڑھنا تک نصیب نہ ہوسکا۔
ہمیں یہ تو نظر آتا ہے کہ اسفندیار ولی خان کا پارٹی عہدہ سنبھالنا جمہوری اصولوں کے خلاف ہے۔
لیکن اسی جمہوریت کی خاطر اسفندیار ولی کے پشت پر لگے زخموں کے نشان یاد نہیں رہتے۔
اس ملک میں سیاست کرنا پھولوں کا سیج نہیں ،
مولاُ خوش رکھے !
یہ حقیقت تو اب آپ کو قیدی نمبر آٹھ موری چار بھی بتائے گا۔
واپس کریں