دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جنگ ستمبر
طاہر سواتی
طاہر سواتی
“بزدل دشمن نے رات کی تاریکی میں لاہور پر حملہ کردیا ، ہمارے بہادر جوانوں نے جان پر کھیل کر دشمن کا حملہ پسپا کیا اور اس کے ناپاک عزائم خاک ملا دئیے”آپ نے بھی پڑھا ہوگا، میں نے بھی زبردست رٹا لگایا تھا ، مطالعہ پاکستان کا پرچہ اچھے نمبروں سے پاس ہوجاتا ہے۔جنگ سے چند مابعد ۱۰ جنوری ۱۹۶۶کو موجودہ ازبکستان کے دارالخلافے تاشقند میں سویت یونین کے تعاون سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔
اس معاہدے کی دوسری شق یہ تھی کہ دونوں ممالک کی فوجیں ۵ اگست ۱۹۶۵ سے پہلی والی پوزیشن پر چلی جائینگی۔
تاریخ کا سوال یہ ہے کہ اگر جنگ ۶ ستمبر کو شروع ہوئی تھی تو ایک ماہ قبل ۵ اگست کو وہ کون سی جنگ تھی جس میں فوجی پوزیشن تبدیل ہوئی تھی جس پر واپس جانا ضروری تھا؟
مطالعہ پاکستان کے مطابق دشمن کو منہ توڑ جواب دیا گیا جبکہ حقیت یہ ہے کہ اس جنگ میں صرف پاکستان ایئر فورس کا پلڑہ بھاری رہا جسے اس جنگ میں بے خبر رکھا گیا تھا، پھر بھی ہمارے ہوابازوں نے ۲۰ طیاروں کے بدلے دشمن کے ۷۵ طیارے مار گرائے ۔
باقی ہر لحاظ سے ہمارا نقصان زیادہ ہوا ۔
پاکستان ۵۴۰ مربع کلومیٹر جبکہ بھارت تقریبا۱۸۰۰ مربع کلومیٹر کے علاقے پر قابض ہوگیا تھا۔
جس میں حاجی پیر اور ٹیتھوال جیسے جنگی اہمیت کے علاقے شامل تھے جس پر ۲۸ اگست کو ہی بھارت نے قبضہ کرلیا تھا۔
معاہدہ تاشقند کی رات جب بھارتی وزیر اعظُم بہادر لال شاستری نے اپنے گھر فون کیا تو ان کی بڑی بیٹی نے فون اٹھایا اور کہا کہ اماں فون پر نہیں آئیں گی۔
انھوں نے پوچھا کیوں؟
جواب آیا اس لیے کہ آپ نے حاجی پیر اور ٹیتھوال پاکستان کو دے دیا اور وہ اس بات سے بہت ناراض ہیں۔ شاستری کو اس بات سے بہت صدمہ پہنچا اور اسی رات دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہوگئے،
قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہم قومی سلامتی کے نام پر قوم سے جھوٹ بولتے آرہے ہیں ۔
ہر معاملے میں جھوٹ ، منافقت ، خود پسندی، بے جا قومی تفاخر ، نرگسیت، مذہبی ٹچ، دنیا پر حکمرانی کے غیر حقیقی سپنے، دہرا معیار ،سطحی سوچ ، مخالفین کا مذاق اور ریاکاری ہمارے قومی عادتیں ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے ایک انسانی شکل دیکر عمران نیازی کی صورت میں ہم پر نازل کردیا ہے۔
اب سب حیران ہیں کہ اس کا کیا کریں ۔
واپس کریں