دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
صبح لہو رنگ ۔طاہر سواتی
طاہر سواتی
طاہر سواتی
یہ وہ صبح لہو رنگ تھی جب بچپن کا دوست اچانک دشمن بن گیا ، پڑوسی پڑوسی کے خون کا پیاسا ہو گیا۔ جس زمیں ، گاؤں اور گھر میں آپ کے باپ دادا برسوں سے آباد تھے ، جس کے کھیت کلیانوُں میں آپ کے بچپن اور لڑکپن کی یادیں تھیں ۔آدھی رات کے ایک اعلان کے بعد وہ سب کچھ آپ کے لئے اجنبی تھا۔نفرت کی آگ میں وحشت کا ایسا رقص شروع ہوا جسے دیکھ کر وحشی بھی کانپ اٹھے۔پورے کے پورے گاؤں جلا دیئے گیے، مردوں اور بوڑھوں کا قتل عام ہوا، خواتین کی آبرو یزی کی گئی، حاملہ خواتین کے پیٹ چاک کر اس سے بچے نکالے گئے۔شیر خوار بچے نیزوں پر اچھالے گئے۔ لہو کی ایسی بارش ہوئی کے پھلوں اور پھولوں پر صرف خون ہی خون تھا۔
ریل گاڑی چاہے لاہور سے امرتسر جانے والی ہو یا امرتسر سے لاہور آنے والی اس کے دروازے اور کھڑکیوں کی سلاخیں تازہ انسانی لہو سے تر تھیں۔
دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کے مظالم دیکھنے والے گورے سپاہیوں اور صحافیوں کے نزدیک وہ ظلم ۴۷ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔
ڈیڑھ کروڑ انسان ہجرت پر مجبور ہوئے۔
یہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت تھی ۔
پنجاب میں ایک کروڑ اس عذاب سے گزرے۔
ایک مخصوص اندازے کے مطابق بھارت سے پاکستان ہجرت کرنے والوں کی تعداد ۸۰ لاکھ تھی اسی طرح ۷۰ لاکھ کے قریب ہندو اور سکھ پاکستان سے بھارت چلے گئے تھے۔
۲۲ لاکھ کے قریب ایسے بدبخت تھے جو اپنے گھر سے نکلے لیکن کبھی اپنی منزل تک نہ پہنچ سکے۔ اس میں ۱۴ لاکھ مسلمان اور ۸ لاکھ کے قریب ہندو اور سکھ بتائے جاتے ہیں ۔
مورخ آج بھی اس آگ کا ایندھنٗ بننے والے انسانوں کی صحیح تعداد بتانے سے قاصر ہے۔
ہجرت کرنے والوں کی طرح یہ قتل عام بھی دو طرفہ تھا۔
شروع میں یہ تعداد ۲ لاکھ سے ۲۰ لاکھ کے قریب بتائی جاتی تھی۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق کے مطابق ۳۴ لاکھ انسان اس آگ کی نظر ہوئے ۔
لیکن ۱۰ لاکھ کے ہندسے پر مورخین اور محقیقین کی اکثریت متفق ہے۔ جس میں چھ لاکھ مسلمان اور ۴ لاکھ ہندو و سکھ بتائے جاتے ہیں ۔
۳ جون کا منصوبہ مشتہر ہوتے ہی دونوں جانب کے قصائیوں نے اپنی اپنی چاقو چھریاں تیز کرنا شروع کردی تھیں۔
لیکن سب سے پہلا قتل عام جون سے بھی تین ماہ قبل مارچ ۱۹۴۷ میں راولپنڈی کے قریب چوا خالصہ میں شروع ہوگیا تھا جہاں مسلم لیگ نیشنل گارڈ کے ہمراہ مسلمانوں نے دیوالی کے موقع پر سکھوں اور ہندوں پر حملہ کیا ۔ ۲۲۰۰ کے قریب لوگ قتل عام کی نذر ہوئے۔ ۹۰ کے قریب سکھ عورتوں نے کنوں میں چھلانگ لگا کر اپنی عزت بچائی ۔
یہ سانحہ اتنا شدید تھا کہ وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن کو خود جائے وقوع پر جانا پڑا۔
علاقے کے اہل ایمان کافی دنوں تک اس فتح کا جشن مناتے رہے لیکن بعد میں مشرقی پنجاب کے مسلمانوں نے اس کی دس گنا قیمت اد کی ۔
جشن آزادی مبارک ہو ۔
واپس کریں