دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
۱۴ ستمبر ۲۰۲۴ مولانا فضل الرحمان کی سیاست کے عروج کا آخری دن تھا
طاہر سواتی
طاہر سواتی
اگر پارلیمان کو آئین کا خالق تو سپریم کورٹ کو اسی آئین کا محافظ سمجھا جاتا ہے۔لیکن یہ کیسا محافظ ہے جس نے ہمیشہ آئین پر نقب ڈالنے والوں کا ساتھ دیا۔ایک آمر نے آئین کو توڑا تو سپریم کورٹ نے نہ صرف اس اقدام کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دے دیا بلکہ اسی آمرُ کے خواہش پر منتخب وزیر اعظم کو تختہ پر لٹکا دیا۔ نصف صدی بعد اسی سپریم کورٹ نے خود اقرار کیا کہ عدالتی قتل ہوا تھا۔پھر ایک ڈکٹیٹر آیا اور آئین توڑ کر دو تہائی والے وزیر اعظم کو گرفتار کرلیا ۔
سپریمُ کورٹ نے حسب روایت نہ صرف آئین شکن ڈکٹیٹر کو خوش آمدید کہا بلکہ اسے آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا ۔۱۷ سال بعد اسی سپریم کورٹ نے اپنی روایت برقرار رکھی اور جرنیلوں کی خواہش پر ایک منتخب وزیر اعظم کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کی جرم میں تاحیات نااہل کردیا ۔ ثاقب نثار جیسا نمونہ بھی اسی چیف جسٹس بھی کا چیف جسٹس تھا جو بڑے رعونیت سے کہتا تھا کہ جو میں کہتا ہوں وہی آئین اور قانون ہے۔
دوسری جانب پارلیمانُ ہے جو آئین اور قانون کے مطابق ترمیم کے لئے ۲۲۴ ووٹ پورے کرنے کے لئے تگ و دو کررہی ہے۔ ۲۲۳ بھی ہوئے تو ترمیم نہیں ہوسکتی ، ان ۲۲۴ اراکین میں ملک کے ہر قوم اور نسل کی نمائندگی موجود ہے۔یہ قوم کی اجتماعی شعور کا مظہر ہے۔ میں تو اس لڑائی میں پارلیمان کے ساتھ کھڑا ہوں ۔اگر کوئی چیز غلط بھی پاس ہوئی تو یہ پارلیمان نہ سہی اگلا ہی اسے درست کردے گی ۔جمہوریت ایک ایسا نظام ہے جسے اگر چلنے دیا جائے تو یہ اپنے خامیوں کو خودُ دور کرتی رہتی ہے۔
وقت کے ساتھ حالات بدل جائیں گے ۔
یہ حکومت بھی ختم ہوسکتی ہے کہ سدا بادشاہی صرف اللہ کی ہے ۔
آنے والے وقت میں مولانا فضل الرحمان جیسوں کو بڑے عہدے بھی مل سکتے ہیں ۔ لیکن ایک بات دیاد رکھیں ۔۱۴ ستمبر ۲۰۲۴ مولانا فضل الرحمان کی سیاست کے عروج کا آخری دن تھا۔جس کے بعد وہ مولوی طارق جمیل کی طرح ڈھلوان کی جانب سفر شروع کرچکے ہیں ۔
مولا خوش رکھے بس دیکھتے جائیں ۔
واپس کریں