دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
“ مطالعہ پاکستانی منافق دانشور “
طاہر سواتی
طاہر سواتی
بدبخت اور قبل گرفت ہیں وہ عام عوام جو جذبات میں اکر زومبیز ہجوم کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔معاشرے کا ناسور ہیں وہ انتہا پسند مولوی جو عام لوگوں کو مذہبی منافرت کی تبلیغ کرکے انہیں شدت پسندی پر اکساتے ہیں ۔
لیکن ان سب سے بڑھکر قابل نفرت ہیں وہ نام نہاد جمہوریت پسند دانشور جو منافقت کی کوہ ہمالہ پر بیٹھ جمہوریت اور امن کا درس دیتے ہیں لیکن اندرون دل ان زومیبر کے حمایتی ہیں ۔
مجھے افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان مطالعہ پاکستانی منافق دانشوروں میں ن لیگ کے حمایتی سب سے ذیادہ ہیں ۔
یہ کل سوات والے واقعے کے اصل محرکات سے توجہ کے لئے اس پنجابی پشتون کا رنگ دے رہے ہیں کیونکہ ان میں مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف بولنے کی ہمت نہیں ، بولنے کی ہمت اس لئے نہیں کہ ان کی اپنی شخصیت میں ایک خادم گالوی یا فضل اللہ چھپا ہوا ہے۔
ان کو یہ فکر نہیں کہ ایک انسان مزہبی زومبیز کے ہاتھوں مارا گیا بلکہ یہ افسوس ہے کہ وہ سوات میں پختون ہجوم کے ہاتھوں کیوں مارا گیا۔
اس کا مطلب ہے کہ اگر مقتول شخص اپنے آبائی گاؤں سیالکوٹ میں ہوتا تو اس الزام میں بچ جاتا ۔
اسی سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کے ساتھ کیا ہوا۔
اب چند دن قبل سرگودھا اور اس سے قبل جڑانوالہ میں مسیحی برادری کا قتل عام بھی پختونوں نے کیا تھا؟
مسلئہ پختون پنجابی کا نہیں ان دانشوروں کی منافقت کا ہے۔
اگر باچا خان کے پرامن پیروکار اسلام آباد کی کسی یونیورسٹی میں اپنے جائز مطالبات کے لئے پر امن احتجاج کردیں تو ان دانشوروں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہوجاتا ہے۔ اور یہ اسے پختون پنجابی تنازع کی شکل دے دیتے ہیں ،
دوسری جانب افگانستان میں پختون بندوق برادر ان کے جگر گوشے ہیں وہاں پھر عصبیت کے خلاف احادیث لے اتے ہیں ۔
ایک ممتاز ن لیگی دانشور جسے پختون قوم پرستون سے الرجی ہے وہ دو بار ہمارا واٹس گروپ اس لئے چھوڑ گئے کہ وہ اس وقت افگانستان میں بندوق برداروں کے خلاف کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں تھے۔
یہی منافق پاکستان میں جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں ۔
ایسے دانشوروں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔
میرا مقدمہ جمہوریت ہے۔
اور میں عملی طور پر دیکھ چکا ہوں کہ کس طرح ایک جمہوری معاشرے میں مختلف عقیدوں اور قومیتوں کے لوگ امن و آتشی سے زندگی گزارتے ہیں ۔
واپس کریں