دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
گم شدہ پودا ڈھاکہ کے شمال میں دریافت ہوچکا ہے۔
طاہر راجپوت
طاہر راجپوت
بنگلہ دیش صرف 35 ارب ڈالر کے کپڑے کی ایکسپورٹ کرتا ہے۔ اب وہ قدیم شاہی ململ جس کے بارے میں مشہور تھا کہ پورا تھان ایک چھوٹی سی ڈبیا میں آ جاتا ہے کو دوبارہ تیار کرنے کے لئے کام کر رہا ہے۔ ڈھاکہ کی ململ پوری دنیا میں مشہور تھی۔ڈھاکہ کی ململ کے بارے میں یہ بات نانی دادیوں کی کہانیوں اور قصوں کی طرح سینہ بہ سینہ چلی آتی ہے کہ یہ اس قدر باریک اور ہلکا پھلکا کپڑا ہوا کرتا تھا کہ اس کا پورا تھان ایک ماچس کی ڈبیا میں آجاتا تھا۔
یورپ میں ڈھاکہ کی ململ کے بارے میں یہ تصور عام تھا کہ تیز روشنی یا بارش کی پھوار اس کومل اور نازک کپڑے سے بنے ملبوسات پہننے والوں کو آشکار کر سکتی ہے۔ماہر کاریگروں کے ہنر کا یہ شاہکار دنیا میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ڈھاکہ ململ کی تیاری میں کاری گروں کے دستِ ہنر کی مہارت تو ایک راز تھا ہی لیکن کپاس کا وہ خاص پودا جس کے دھاگے سے یہ کپڑا تیار کیا جاتا تھا وہ بھی ناپید ہوگیا تھا۔اس کپڑے نے دنیا میں بنگال کی کپڑا بننے (پارچہ بافی) کی صنعت کو عالم گیر شہرت عطا کی اور اس کی تجارت سے یہ خطہ خوشحال ہوا۔ شاہی پوشاک بننے والا یہ کپڑا چند عجائب خانوں اور تاریخ کے تذکروں میں ہی باقی رہ گیا ہے۔
لیکن بنگلہ دیش میں اب اس تاریخی ورثے کو بحال کرنے کے لیے کوششوں کا آغاز ہوا ہے اور سب سے پہلے کپاس کی اس خاص قسم کی تلاش کی گئی ہے جس سے یہ کپڑا بنایا جاتا تھا۔تئیس جون 1757 کو جنگِ پلاسی میں نواب سراجہ الدولہ کی شکست کے بعد بنگال ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط میں آ گیا۔ سراج الدولہ کے بعد آںے والے بنگال کے نواب نے ململ کی تیاری کی صنعت کمپنی کے سپرد کر دی تھی۔ اس سال بھی اندازاً 29 کروڑ روپے مالیت کی ململ دنیا بھر میں فروخت ہوئی۔ لیکن اٹھارہویں صدی کے آخر تک ململ کی برآمدات نصف سے بھی کم ہوگئیں۔اسی لیے برطانوی حکومت نے بنگال میں ڈھاکہ ململ کی صنعت کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا۔
1857 کے بعد ہندوستان میں مغل سلطنت کا بھی خاتمہ ہوگیا جو کہ اس کپڑے کے بڑے خریدار اور پرستار تھے۔بنگال کے نوابین ڈھاکہ کی ململ مغل شہنشاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انہیں تحفے میں پیش کرتے تھے۔بعض تواریخ میں یہ بات بھی بیان کی گئی ہے کہ مغل شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں اس ململ کو بہت پسند کرتی تھیں اور انہوں نے اسے شاہی حرم میں رواج دیا تھا۔بعض مؤرخین کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی نے ململ تیار کرنے والے کاریگروں کو سزائیں بھی دیں۔ تاریخ میں جیمز ٹیلر کی دستاویز کا تذکرہ بھی ملتا ہے جس کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایسے 700 کاریگروں کے انگوٹھے کاٹ دیے تھے جنہوں نے ململ تیار کرنے کا کام چھوڑنے سے انکار کردیا تھا۔
بنگالی محقق منظور حسین اور ان کی ٹیم نے اٹھارہویں صدی میں پودوں سے متعلق سوئیڈن سے تعلق رکھنے والے محقق کال لینائیس کی کتاب اور ڈھاکہ ململ سے متعلق تاریخی کتابوں کی چھان بین کی۔ اس کے بعد پورے بنگلہ دیش میں 39 مختلف اقسام کے کپاس کے ایسے پودوں کا انتخاب کیا گیا جو ممکنہ طور پر ڈھاکہ ململ کی تیاری کے لیے موزوں ہوسکتے تھے۔لندن کے وکٹوریہ اور البرٹ میوزیم میں انہیں ململ کے ایسے سیکڑوں پارچے ملے جو مغل دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجر برطانیہ لائے تھے۔ان نمونے کے جینیاتی تجزیے سے معلوم ہوا کہ ململ کی تیاری میں استعمال ہونے والا گم شدہ پودا پہلے ہی ڈھاکہ کے شمال میں کپاسیا کے قصبے میں دریافت ہوچکا ہے۔لندن کے وکٹوریہ اور البرٹ میوزیم میں انہیں ململ کے ایسے سیکڑوں پارچے ملے جو مغل دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجر برطانیہ لائے تھے۔ان نمونے کے جینیاتی تجزیے سے معلوم ہوا کہ ململ کی تیاری میں استعمال ہونے والا گم شدہ پودا پہلے ہی ڈھاکہ کے شمال میں کپاسیا کے قصبے میں دریافت ہوچکا ہے۔
بشکریہ وائس آف امریکہ
واپس کریں