طاہر سواتی
ہماراجی ایم ایک شامی تھا، ڈائرکٹر امریکن اور سینئر پراجیکٹ مینجر برطانوی گورے تھے۔ بحیثیت پراجیکٹ مینیجر مجھے پراجیکٹ کے لئے نئے بندے بھرتی کرنے تھے۔ میٹنگ کے دوران جی ایم نے ایک بندے کی سی وی نکال کر مجھے سے پوچھا،
“ کیا یہ کتا ہے؟”
میںُ تھؤڑی دیر کے لئے تو ہکا بکا رہ گیا ،
پھر بڑے تحمل سے جواب دیا کہ نہیں یہ انسان ہے اور اس کا انٹریو خود کرچکا ہوں۔
اس دوران اس نے پروکیورمنٹ مینجر سے زیر لب مسکراتے ہوئے پوچھا کہ اسے کتوں کا پتہ ہے ۔
اس نے جواب دیا کہ نہیں سر یہ نیا ہے میں اسے سمجھا دوں گا۔ بعد میں خالد صاحب نے مجھے بتایا کہ پلسطینیوں کے لئے “ کتے “ کا کوڈ ورڈ استعمال ہوتا ہے۔ مجھے یہ بات بہت بری لگی ۔
اب پلسطینیُ صدر محمود عباس نے ایک تازہ بیان میں خناس کو “ کتے کے بچے “ قرار دیکر انہیں یرغمالیوں کو چھوڑنے کا کہاہے ، جبکہ دوسری جانب خناس اور ان کے حمایتی محمود عباس کو عزارئیل کا بل ڈاگ ( بڑے منہ والا کتا ) کہتے ہیں ۔ دونوں اپنی جگہ پر درست ہی کہتے ہوں گے۔
جب جماعت اسلامی پلسطینوں سے اظہار یکجہتی کے لئے اپنے ملک ہی ملک کو بند کررہی تھی ، پلسطین کا صدر محمود عباس انڈیا کو خط لکھ کر اپنی حمایت کا یقین دلا رہا تھا۔ جبکہ دوسری جانب اسی لمحے پاکستان و بھارت جنگ کے دھانے پر کھڑے تھے اور بارڈر پرُ شدید گولہ باری جاری تھی۔
کہا جارہا ہے کہ جب ساری دنیا اس افسوس ناک واقعہ پر بھارت سے اظہار یکجہتی کررہی ہے تو اگر پلسطینیوں نے کردی تو کون سی قیامت ٹوٹی ۔
ویسے تو ہم نے تو عزرائیل سے خدا واسطے کی دشمنی پالی ہوئی ہے لیکن خناس کے اکتوبر ۲۰۲۳ کی دھشت گردی پر پاکستان بھی انسانی ھمدردی کی بنیاد پر اظہار ہمدردی کردیتا جس میں ۳۶۰ بیگناہ سویلین مارے گئے تھے تو پسلطینوں ، محمود عباس اور ان سے بڑھ کر ہمارے مولویوں کا رد عمل کیا ہوتا؟
واپس کریں