دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہر ازم، مذاق ازم
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
یہ صدی صرف ٹیکنالوجی، علم، ترقی اور طاقت کی صدی نہیں، بلکہ ننگی سچائیوں، کھردری حقیقتوں اور اخلاقی برہنگی کی صدی بھی ہے۔ وہ صدی جس نے نہ صرف جسموں سے لباس اتارا بلکہ ذہنوں سے یقین، چہروں سے نقاب، اور دلوں سے حیا چھین لی۔ اب کوئی پردہ باقی نہیں رہا — نہ نظاموں پر، نہ نظریات پر، نہ مذہب پر، نہ رشتوں پر۔ ہر چہرہ اپنی اصل بدصورتی کے ساتھ سامنے آ چکا ہے، اور ہر نقاب خود اپنا مذاق بن چکا ہے۔
جمہوریت، جو کبھی عوامی اختیار، انسانی آزادی اور برابری کا خواب سمجھی جاتی تھی، آج عالمی طاقتوں کی کٹھ پتلی بن کر رہ گئی ہے۔ وہ عوامی نمائندگی کا ڈھونگ جو ایوانوں میں رچایا جاتا ہے، درحقیقت سرمایہ داروں، مافیاز، اور استحصالی طبقات کی گودی میں پلنے والا ناچ ہے۔ عوام کا ووٹ صرف تخت تک پہنچنے کا زینہ ہے، اقتدار میں آنے کے بعد وہی عوام محض اعداد و شمار کی شکل میں فائلوں میں دفن کر دیے جاتے ہیں۔ جو جمہوریت انسان کے حقوق کی ضامن تھی، وہی آج انسانیت کی تذلیل کی علامت بن چکی ہے۔
انسانی حقوق کا چرچا کرنے والے عالمی ادارے، جنہوں نے بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ نسل، رنگ، مذہب اور سرحدوں سے بالا تر ہو کر انسان کی حرمت کا تحفظ کریں گے، آج انہی اداروں کی آنکھوں کے سامنے فلسطینی بچوں کے لاشے بکھرے پڑے ہیں۔ شام، عراق، یمن اور افغانستان میں خون بہتا رہا، مگر انسانی حقوق کے علمبردار خاموش رہے۔ روہنگیا سے لے کر کشمیر تک، ظلم کی داستانیں چیخ چیخ کر ان اداروں کی منافقت کو بے نقاب کرتی رہیں — اور وہ محض رپورٹس چھاپتے رہے۔
سرمایہ داری، جو کبھی ترقی کا انجن کہلائی، آج خون آشام درندے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ انسان محض صارف اور خواہشوں کا غلام بن چکا ہے۔ مصنوعات کے اشتہاروں میں انسانیت کا جنازہ لپٹا ہوا ہے۔ بازار نے ضمیر خرید لیے ہیں، بینکوں نے خواب گروی رکھ لیے ہیں، اور اسٹیبلشمنٹس نے اخلاقیات کے جنازے پر اپنی مہر ثبت کر دی ہے۔
اشتراکیت، جس نے برابری کا نعرہ بلند کیا تھا، خود ظلم کے نئے روپ میں ابھری۔ انقلاب کے نام پر جو خون بہایا گیا، وہ صرف اقتدار کی تبدیلی تھی، استحصال کے خاتمے کی کوئی سبیل نہ بنی۔ روس سے چین تک، ہر اشتراکی تجربہ فرد کی آزادی کو نگل کر ختم ہوا، اور بالآخر خود تاریخ کی عدالت میں بے نقاب کھڑا ہے۔
مذہب، جو روح کی تسکین، امن و آشتی اور اخلاقی روشنی کا پیامبر تھا، اب مسلکوں کی بندوق، فتووں کی تلوار اور دلالوں کی دکان بن چکا ہے۔ منبر، جو کبھی صوفی کے دل کی نرمی لیے ہوئے ہوتا تھا، اب نفرت کی آگ اگلتا ہے۔ جہاد، جو مظلوم کی ڈھال ہوا کرتا تھا، اب دہشت گردی کے دھوئیں میں گم ہو چکا ہے۔ مقدس کتابیں سیاست کے منشور میں بدل دی گئی ہیں، اور دین کے ٹھیکے دار حشر سے پہلے ہی اپنے نفاق اور اعمال کا حساب دے بیٹھے ہیں۔
اور اُمہ؟ وہ خواب جس کے سہارے نسلیں پروان چڑھیں، وہ امید جس کی حرارت دلوں کو گرماتی رہی — وہ اب مشرقِ وسطیٰ کے چوراہے میں پھوٹی ہوئی ہانڈی ہے، جو طاقتوروں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ اتحاد، جو حرفِ اول تھا، اب حرفِ آخر ہو چکا۔ حکمران باہم مل کر ایک دوسرے کے خنجر تیز کرتے ہیں، اور عوام خدا کے سہارے پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔
یہ سب کچھ اتفاقیہ نہیں، بلکہ منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا ہے۔ یہ ایک عالمی نظام ہے جو چاہتا ہے کہ انسان صرف ایک چپ کوڈ ہو، جذبات سے خالی، ضمیر سے عاری، اور شعور سے محروم۔ اسے بس چلنا ہو، کھپنا ہو، مرنا ہو — اور سوال نہ کرنا ہو۔
مگر سوال تو اب لازم ہے۔ کہ ہم کس بھول بھلیوں میں جی رہے ہیں؟ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ کیا ہماری سوچ، ہمارے فیصلے، ہماری ترجیحات واقعی ہمارے اپنے ہیں؟ یا ہم ایک ایسے سرکس کا حصہ ہیں جہاں ہر ازم، ہر نظریہ، ہر اصول — محض تماشہ ہے؟ ایک تماشہ جو اب مذاق میں بدل چکا ہے۔ اور یہ مذاق سنگین ہے۔ خطرناک ہے۔ جان لیوا ہے۔
اگر اب بھی پاکستانی نہیں سمجھے، اگر اب بھی ہم نے آنکھیں نہ کھولیں، تو پھر شاید ہمارا مٹنا ہی مقدر بن جائے۔ یہ وقت ہے اپنی چپ، اپنی نیند، اپنے سکوت سے بیدار ہونے کا۔ ورنہ تاریخ کے صفحات پر صرف یہی لکھا جائے گا:
"وہ ایک قوم تھی — جو ہر ازم کا شکار بنی، ہر ازم کے ڈھول پر ناچی، ہر ازم کو برتا — مگر خود اپنا آپ کھو بیٹھی۔"
واپس کریں