دارالعلوم حقانیہ پر حملہ کیا نئی جنگ کی شروعات ہیں؟
خالد خان۔ کالم نگار
دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ایک بار پھر اخبارات کی شہہ سرخیوں، نیوز چینلز کی ہیڈ لائنز اور تجزیہ کاروں کے مباحثوں میں نمایاں اور مرکزی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اس اچانک اہمیت کی وجہ کوئی علمی بحث یا نظریاتی مناظرہ نہیں ہے بلکہ وہ خون آشام واقعہ ہے جس میں دارالعلوم حقانیہ کے روح رواں مولانا حامد الحق سمیت چھ نمازیوں کی بے گناہ اموات ہو گئی ہیں۔ جمعہ کے روز 28 فروری 2025 کو مدرسے کے احاطے میں ایک خودکش حملہ ہوا جس نے ملک بھر کی فضا کو سوگوار کر دیا۔ یہ حملہ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات میں ایک اور خوفناک اضافہ ہے جس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
دارالعلوم حقانیہ کا شمار پاکستان کے قدیم اور بااثر مدارس میں ہوتا ہے جسے دیوبند ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد 1947 ہی میں مولانا حامد الحق کے دادا شیخ الحدیث مولانا عبد الحق نے اس کی بنیاد رکھی، اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ مدرسہ مذہبی، جہادی اور سیاسی سرگرمیوں کے میدان میں تبدیل ہوا۔ روس کے خلاف افغان جہاد کے دوران دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نے امتیازی مقام حاصل کیا۔ اگرچہ روس کے خلاف جہاد کا اولین فتوی مولانا مفتی محمود نے جاری کیا تھا اور اولین جہادی اجتماع سے وزیرستان میں قبائل کو منظم کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے عملی جہاد کا آغاز کیا تھا۔ مگر جہاد افغانستان کے لیے فعال کردار مولانا سمیع الحق نے ادا کیا تھا جو مولانا عبد الحق کے صاحبزادے اور مولانا حامد الحق کے والد تھے۔ مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق کے راستے افغان جہاد کے شروعات ہی میں بدل گئے تھے کیونکہ افغان جہاد میں طاقتور حلقوں نے مولانا فضل الرحمن پر مولانا سمیع الحق کو ترجیح دی تھی۔ افغان جہاد کے صف اول کے جہادی راہنما دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے فارغ التحصیل تھے جن میں مولوی جلال الدین حقانی، مولوی یونس خالص اور مولوی محمد نبی جیسے معتبر جہادی قائدین بھی شامل تھے۔ یہی پس منظر بعد میں اس مدرسے کو عالمی سطح پر ایک مخصوص تشخص دینے کا باعث بنا، جس میں طالبان کے ساتھ اس کی وابستگی پر سب سے زیادہ توجہ دی گئی۔
حملے کے بعد تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار کے درمیان بیانیہ کی جنگ چھڑ چکی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے فوراً اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ جماعت الاحرار نے اس مقدس مقام کو نشانہ بنا کر اپنے مذموم عزائم دنیا پر آشکار کر دیے ہیں، جبکہ جماعت الاحرار نے اس دعوے کو رد کرتے ہوئے اشارہ دیا کہ یہ حملہ خود ٹی ٹی پی کی اندرونی چپقلش کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ تصادم طالبان کے مختلف دھڑوں میں بڑھتی ہوئی خلیج کی علامت ہے، جہاں قیادت اور نظریات کے اختلافات اب کھلی جنگ میں بدل رہے ہیں۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق، حملہ آور افغان شہری تھا، جس سے یہ خدشہ مزید تقویت پکڑ گیا کہ افغان سرزمین ایک بار پھر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ پاکستان پہلے ہی کئی بار افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں پر تحفظات کا اظہار کر چکا ہے، اور یہ واقعہ اس تشویش کو مزید گہرا کر دیتا ہے۔ پاکستانی حکام کا مؤقف واضح ہے کہ اگر افغانستان میں موجود عناصر پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ بنیں گے تو ان کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ اس حوالے سے کچھ حلقے پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہیں، جن میں اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ دہشت گرد گروہ افغان سرزمین کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
یہ حملہ اس وقت ہوا جب پاکستان پہلے ہی ایک نئی دہشت گردی کی لہر کا سامنا کر رہا ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں عسکری کارروائیوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ 2024 میں کابل میں حقانی نیٹ ورک کے ایک سینئر رہنما پر حملے کے بعد سے خطے میں کشیدگی مزید بڑھی، جس کے اثرات پاکستان تک پہنچنے لگے۔ کچھ مبصرین اس واقعے کو خطے میں پاکستان اور افغان طالبان کے تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس قسم کے حملے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہو سکتے ہیں، جس میں بین الاقوامی طاقتیں بھی ملوث ہو سکتی ہیں۔
دارالعلوم حقانیہ کا مستقبل بھی اس حملے کے بعد ایک اہم سوال بن چکا ہے۔ مولانا سمیع الحق کے قتل کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا حامد الحق نے مدرسے کی قیادت سنبھالی تھی، لیکن اب ان کی شہادت کے بعد ادارے کی سمت کا تعین کرنا ایک مشکل چیلنج ہوگا۔ کیا یہ مدرسہ اپنی پرانی حیثیت برقرار رکھ سکے گا، یا داخلی اور خارجی دباؤ کے باعث اس کا کردار بدل جائے گا؟ اس حوالے سے ماہرین کی رائے ہے کہ اگر مدرسے کی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی آتی ہے، تو یہ افغان اور پاکستانی طالبان کے لیے بھی ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے یہ صورتحال ایک نئے امتحان کی حیثیت رکھتی ہے۔ ملک پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ لڑ چکا ہے، لیکن اب اسے ایک نئی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے، جس میں نہ صرف اندرونی دہشت گرد گروہوں کے خلاف سخت اقدامات شامل ہوں بلکہ افغانستان کے حوالے سے ایک واضح اور موثر پالیسی بھی ضروری ہوگی۔ حکومتی ادارے اس حملے کی شفاف تحقیقات کے ساتھ ساتھ مذہبی مراکز کی سیکیورٹی مزید سخت کرنے پر غور کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے۔
یہ حملہ صرف ایک مدرسے پر ہونے والی دہشت گردی نہیں بلکہ ایک بڑے منظرنامے کا حصہ ہے، جہاں شدت پسند گروہ، بین الاقوامی طاقتیں اور علاقائی سیاست آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ پاکستان کو ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا، کیونکہ یہ محض ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک بڑا انتباہ ہے کہ جنگ ابھی ختم نہیں بلکہ شروع ہوئی ہے۔ تاہم، اس نئی جنگ کی نوعیت کیا ہوگی؟ کیا یہ طالبان کے اندرونی دھڑوں کی لڑائی ہوگی، یا پاکستان کے خلاف ایک نئی دہشت گرد مہم کی ابتدا؟ کیا افغانستان کی موجودہ قیادت اس معاملے پر اپنی پالیسی تبدیل کرے گی، یا پاکستان کو مزید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات آنے والے دنوں میں واضح ہوں گے۔
واپس کریں