دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پختونخوا میں جاری عمران گردی
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
خیبر پختونخوا کو عمران خان کے رنگ میں رنگنے اور خان صاحب کو پشتون عوام کے اعصاب پر سوار رکھنے کے لیے صوبائی حکومت کی عمران گردی دھڑلے سے جاری ہے۔صوبائی کابینہ کے پچیسویں اجلاس میں، جو وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین خان گنڈا پور کی زیر صدارت منعقد ہوا، دیگر اقدامات کے علاوہ ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم کے نام کی تبدیلی کی منظوری بھی دے دی گئی۔ ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم کو عمران خان کرکٹ سٹیڈیم میں تبدیل کرنے کی منظوری صوبائی کابینہ نے غیر معمولی گرم جوشی سے دے دی۔
پاکستان تحریک انصاف کی تیسری مسلسل حکومت کو یہ توفیق تو نہیں ہوئی کہ کوئی نیا سٹیڈیم بناتی یا کھیلوں کے فروغ کے لیے کوئی مثبت حکمت عملی بناتی، مگر انہیں اس میں کوئی شرم اور ججھک محسوس نہیں ہوئی کہ ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم کو عمران خان کرکٹ اسٹیڈیم کا نام دے دیا۔ نام کی تبدیلی کے ساتھ کمائی کا بندوبست بھی کیا گیا اور سٹیڈیم کی لاگت دو ارب 31 کروڑ تک بڑھا دی گئی، جبکہ 2018 میں سٹیڈیم کی لاگت ایک ارب 37 کروڑ روپے لگائی گئی تھی۔ سال 2021 میں لاگت ایک ارب 94 کروڑ روپے تک پہنچ گئی تھی، جبکہ 2024 میں سٹیڈیم کی لاگت دو ارب 31 کروڑ روپے تک پہنچ گئی۔ پی ٹی آئی نے کبھی اس بات پر شرم بھی محسوس نہیں کی کہ انکی ناقص طرز حکمرانی کی وجہ سے صوبہ دہشت گردی کے لپیٹ میں ہے۔امن و امان مکمل طور تباہ ہوچکا ہے اور آج کوئی بھی ٹیم پشاور میں میچ کھیلنے کے لیئے تیار نہیں ہے مگر کھیل پر بھی سیاست ہوتی رہی گی۔
ارباب نیاز کے صاحبزادے اور سابق چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا، ارباب شہزاد، جو عمران خان کے مشیر بھی رہے ہیں، نے سٹیڈیم کے نام کی تبدیلی پر سخت موقف اپناتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔
ارباب شہزاد نے اسے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے عمران خان کو خوش کرنے کے لیے چاپلوسی قرار دیا۔ یاد رہے کہ میونسپل کارپوریشن پشاور نے ارباب نیاز کی رحلت کے بعد ان کی خدمات کے اعتراف میں ایک قرارداد کے ذریعے نئے بننے والے کرکٹ سٹیڈیم کا نام ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم رکھنے کی منظوری دی تھی۔
ارباب نیاز محمد خان پاک فوج سے بطور لیفٹیننٹ کرنل سبکدوش ہوئے تھے اور جنرل محمد ضیاء الحق کی کابینہ میں کھیل، ثقافت و سیاحت کے وفاقی وزیر رہے تھے۔ اس سے قبل ارباب نیاز پشاور کے میئر بھی رہے۔ ان کے بھائی ارباب جہانگیر خان وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور وفاقی وزیر بھی رہے۔ ارباب جہانگیر خان نے 7 اپریل 1985 سے لے کر مئی 1988 تک وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالا تھا۔ سال 1970 سے 2002 تک کے 32 سالہ سیاسی کیریئر میں وہ تین مرتبہ قومی اور چار مرتبہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہو کر ناقابل شکست رہے تھے۔ ارباب نیاز کے دوسرے بھائی، ارباب فتح محمد خان، بھی پشاور کے میئر رہے۔
ارباب نیاز کے بیٹوں میں ارباب طارق پشاور کے میئر، ارباب شہزاد خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹری اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے مشیر، جبکہ تیسرے بیٹے ارباب دوست محمد کمشنر افغان مہاجرین رہے۔ پی ٹی آئی کے موجودہ رکن قومی اسمبلی، ارباب شیر علی، ارباب نیاز کے پوتے ہیں۔
ارباب نیاز کے بھتیجے، ارباب عالمگیر، سابق وفاقی وزیر اور پیپلز پارٹی کے رہنما ہیں۔ ارباب عالمگیر کی اہلیہ، عاصمہ عالمگیر، بھی وفاقی وزیر رہ چکی ہیں۔ ان کے صاحبزادے، ارباب زرک خان، اس وقت پیپلز پارٹی کے رکن خیبر پختونخوا اسمبلی ہیں۔ ارباب زرک، سابق ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اکبر ہوتی کے داماد ہیں، جن کے والد نواب زادہ غفور ہوتی خیبر پختونخوا کے گورنر رہے ہیں۔
ارباب نیاز کرکٹ اسٹیڈیم پشاور میں 2 نومبر 1984 کو پہلا ایک روزہ بین الاقوامی میچ پاکستان بمقابلہ بھارت کھیلا گیا تھا اور آخری ایک روزہ میچ بھی 6 فروری 2006 کو پاکستان بمقابلہ بھارت منعقد ہوا تھا۔
کسی عمارت، سڑک یا کھیل کے میدان کا نام کسی شخصیت کے نام پر رکھنا کوئی سادہ اور جذباتی عمل نہیں ہوتا، بلکہ اس کے انتہائی دور رس نتائج ہوتے ہیں۔ بڑی سے بڑی شخصیت بھی انتقال کرنے کے بعد دھیرے دھیرے لوگوں کے ذہنوں سے معدوم ہوتی چلی جاتی ہے۔ وہ شخصیات امر رہتی ہیں جن کے نام پر کوئی عوامی عمارت، شاہراہ یا کھیل کا میدان بنایا جاتا ہے۔ دنیا میں اس کی مثالیں موجود ہیں اور اس کے دور رس نفسیاتی اثرات پر کئی مطالعات دستیاب ہیں۔
اگرچہ عام طور پر روایت ہے کہ ایسے منصوبے مرحومین کے نام پر رکھے جاتے ہیں، اور عمران خان کا دو ٹوک ذاتی موقف بھی اس پر موجود ہے کہ کسی بھی منصوبے کو زندہ لوگوں کے نام نہیں کیا جانا چاہیے، مگر حسبِ عادت خان صاحب نے اس پر بھی یوٹرن لے لیا۔ ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم کا نام تبدیل کرکے عمران خان کرکٹ سٹیڈیم رکھنا صرف اور صرف عمران خان کے نام کو لوگوں اور آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں جاوداں رکھنے کی کوشش ہے تاکہ اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکے۔
عمران خان کے بعد پاکستان تحریک انصاف یقینا اس نئی سیاسی اشرافیہ کے تصرف میں چلی جائے گی جو خان صاحب کی سیاست سے مستفید ہو رہے ہیں۔ دنیا میں کسی بھی سزا یافتہ شخص کے نام شاید یہ پہلا منصوبہ ہو۔ غیر ملکی قابضین کے خلاف جدوجہد کرنے والے شہدا اور سزا یافتہ قیدیوں کے نام قومی منصوبے رکھنے کی سمجھ تو آتی ہے، مگر اپنے ملک کے آئین اور قانون کے مطابق ملکی عدالتوں کے سزا یافتہ شخص کے نام پر کوئی منصوبہ کیسے اور کیوں رکھا جا سکتا ہے؟
کیا یہ فعل ایک سزا یافتہ شخص کی تشہیر اور اسے آئیڈیل بنائے رکھنے کی سنجیدہ کوشش نہیں ہے؟
یقینا ایسا ہی ہے، اور یہ مناسب اقدام قطعا بھی نہیں ہے۔ اس طرح کی حرکات طویل عرصے تک انتشاری سیاست کو زندہ رکھیں گی۔ یہ کوئی قومی خدمت نہیں، بلکہ کھلی عمران گردی ہے۔
واپس کریں