دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دنیا برائے فروخت: کارپوریٹ سیاست اور عام آدمی کی بقا کی جنگ
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
دنیا میں طاقت اور اقتدار کی فطرت ہمیشہ ارتقا پذیر رہی ہے، لیکن حالیہ دہائیوں میں ایک حیران کن تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ وہ ارب پتی، جو ماضی میں پس پردہ رہ کر سیاست پر اثرانداز ہوتے تھے، اب خود براہ راست اقتدار میں آ رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست میں آمد اس تبدیلی کی ایک بڑی علامت تھی، اور اب ایلون مسک، جیف بیزوس، مارک زکربرگ جیسے افراد نہ صرف پالیسیوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں بلکہ حکومتی فیصلوں میں بھی براہ راست مداخلت کر رہے ہیں۔ ماضی میں بڑے سرمایہ دار حکومتوں کی پالیسیوں کو پس پردہ رہ کر کنٹرول کرتے تھے۔ وہ سیاستدانوں کو فنڈنگ فراہم کرتے، میڈیا پر اثر انداز ہوتے اور لابنگ گروپس کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ یقینی بناتے، مگر اب صورتحال بدل چکی ہے۔ اب یہ امیر ترین افراد براہ راست سیاست میں آ رہے ہیں اور اپنے فیصلے خود کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست میں آمد اس تبدیلی کا آغاز تھی جہاں ایک ارب پتی شخص براہ راست صدر بنا اور کارپوریٹ مفادات کو کھلم کھلا تحفظ فراہم کیا۔ ٹیکس کٹوتیوں، ماحولیاتی قوانین میں نرمی، اور امیر طبقے کے لیے پالیسی سازیاں ٹرمپ دور میں عام تھیں۔ ایلون مسک کے پاس 400 ارب ڈالر سے زیادہ کی دولت ہے، مگر اب وہ ایک حکومتی ادارے (Department of Government Efficiency - DOGE) کا بھی سربراہ بن چکا ہے۔ اس کا مقصد سرکاری اخراجات میں کمی بتائی گئی ہے، مگر اصل میں یہ "کمی" صرف عوامی فلاحی منصوبوں میں ہو رہی ہے، جبکہ دفاعی بجٹ، اسرائیل کو دی جانے والی امداد، اور کارپوریٹ سبسڈیز برقرار ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ ارب پتی حکومتوں پر قابض ہو کر کیا کر رہے ہیں؟ ان کے فیصلے کن کے حق میں جا رہے ہیں، اور کن کے خلاف؟ امیر افراد کے ٹیکسوں میں کمی، کارپوریٹ سبسڈیز، اور حکومتی اداروں کی نجکاری نے امیر اور غریب کے درمیان فرق کو شدید کر دیا ہے۔ ارب پتیوں کے زیر اثر حکومتیں صحت، تعلیم، اور سماجی بہبود کے بجٹ میں کمی کر رہی ہیں۔ ان سہولیات کو پرائیویٹائز کر کے امیر افراد کے کاروبار کے حوالے کیا جا رہا ہے، جہاں عام آدمی کے لیے بنیادی سہولیات کا حصول مشکل ہو گیا ہے۔ عوامی بہبود پر خرچ کم ہونے کے باوجود، فوجی بجٹ میں کوئی کمی نہیں کی جا رہی۔ امریکہ اور دیگر بڑی طاقتیں اب بھی جنگوں میں ملوث ہیں، اور ہتھیار بنانے والی کمپنیاں ان پالیسیوں سے اربوں ڈالر کما رہی ہیں۔
ماضی میں میڈیا پر سرمایہ داروں کا اثر و رسوخ ہوتا تھا، مگر سوشل میڈیا نے انہیں براہ راست لوگوں کے ذہنوں پر کنٹرول دے دیا ہے۔ ایلون مسک جیسے افراد کھلے عام دائیں بازو کے انتہا پسند گروہوں کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ نفرت انگیز نظریات پھیلانے والے افراد کو اپنی سوشل میڈیا کمپنیوں پر پلیٹ فارم دیتے ہیں اور آزادی اظہار کے نام پر خطرناک بیانیے کو فروغ دیتے ہیں۔ پہلے روپرٹ مرڈوخ جیسے میڈیا ٹائیکونز رائے عامہ پر اثرانداز ہوتے تھے، مگر اب ایلون مسک، زکربرگ، اور دیگر سوشل میڈیا کے بادشاہ براہ راست عوام کے ذہنوں پر حکومت کر رہے ہیں۔ یہ طاقتور ارب پتی ایک ہی پرانی چال استعمال کر رہے ہیں: عوام کو اصل مسئلے سے ہٹاؤ اور کسی اور کو قربانی کا بکرا بنا دو۔ جب بھی معیشت خراب ہوتی ہے، عام آدمی کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اس کا اصل دشمن امیگرنٹس، مسلمان، یا کسی اور اقلیتی گروہ کے لوگ ہیں۔ عام آدمی کے ذہن میں یہ ڈالا جاتا ہے کہ اس کا اصل دشمن اس سے زیادہ مراعات یافتہ کوئی دوسرا غریب آدمی ہے، بجائے اس کے کہ وہ ان پالیسیوں کو سمجھے جو دولت کی تقسیم کو امیروں کے حق میں کر رہی ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ امریکہ میں ہو رہا ہے اور ہمیں اس کی فکر نہیں کرنی چاہیے، مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے فیصلے پوری دنیا پر اثر ڈالتے ہیں۔ امریکہ جب اپنی مرضی سے نوٹ چھاپتا ہے، تو اس کا اثر پوری دنیا میں مہنگائی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی معیشت اس سے براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ امریکہ کے ارب پتیوں کی کمپنیاں صرف اپنے ملک میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں اثرانداز ہو رہی ہیں۔ گوگل، ایمازون، مائیکروسافٹ، اور دیگر کمپنیاں پوری دنیا کی معیشت پر قابض ہیں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگر ان ارب پتیوں کو روکا نہ گیا تو وہ واقعی سب کچھ ہڑپ کر لیں گے۔ ہمیں اس کے خلاف شعور بیدار کرنا ہوگا اور اپنی معیشت، سیاست، اور وسائل پر کنٹرول حاصل کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی قومی سیاست سے آگے بڑھ کر عالمی سیاست کو سمجھنا ہوگا، کیونکہ عالمی فیصلے ہمارے ملکوں پر براہ راست اثر ڈالتے ہیں۔ ہمیں ان کمپنیوں کی پالیسیوں، ان کے رویے، اور ان کے اثرات کا تفصیل سے تجزیہ کرنا ہوگا تاکہ ہم ان کے اثرات سے بچ سکیں۔ ارب پتیوں کے زیر اثر میڈیا اور سوشل میڈیا ہمیں اصل مسائل سے ہٹانے کی کوشش کرے گا، اس لیے عوامی آگاہی مہم ضروری ہے۔
یہ نئی دنیا، جہاں ارب پتی سیاست پر براہ راست قابض ہو رہے ہیں، ایک خطرناک سمت میں جا رہی ہے۔ اگر اس کا ادراک نہ کیا گیا تو یہ طبقہ دنیا کے تمام وسائل اپنے قبضے میں لے لے گا اور عام آدمی کے لیے جینا مزید مشکل ہو جائے گا۔ یہ وقت ہے کہ عوامی شعور بیدار کیا جائے، ورنہ کل بہت دیر ہو چکی ہوگی۔
پاکستان بھی اس عالمی رجحان سے الگ نہیں۔ یہاں بھی سیاست اور معیشت پر مخصوص اشرافیہ کا قبضہ مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ چند مخصوص کاروباری گروہ پالیسی سازی پر اثر انداز ہو رہے ہیں، حکومتی فیصلے طاقتور طبقات کے حق میں ہوتے ہیں، اور عوام کے لیے سہولیات محدود ہوتی جا رہی ہیں۔ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، اور سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ نے عام آدمی کے لیے مواقع کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں کارپوریٹ کلچر کے فروغ نے متوسط اور غریب طبقے کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے، اور اس پر مستزاد یہ کہ میڈیا اور بیوروکریسی بھی انہی طاقتوں کے تابع نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں بڑی کاروباری شخصیات اور سیاستدان ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہ سرمایہ دار حکومتوں کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، اپنے لیے مراعات لیتے ہیں، ٹیکس چھوٹ حاصل کرتے ہیں، اور قومی وسائل کو اپنی دولت بڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ شوگر مافیا، ریئل اسٹیٹ ٹائیکونز، اور دیگر صنعتکار سیاست کے ساتھ جُڑ کر ایسا معاشی نظام تشکیل دے رہے ہیں جہاں عام آدمی کے لیے ترقی کے راستے محدود ہوتے جا رہے ہیں۔
نجکاری کی پالیسی کو قومی معیشت کی بہتری کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں اس کے ذریعے قومی اثاثے چند مخصوص افراد کے حوالے کیے جا رہے ہیں۔ بڑی بڑی کمپنیاں، جو پہلے عوامی فلاح کے لیے کام کرتی تھیں، اب کاروباری مفادات کے تابع ہو چکی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ صحت، تعلیم، اور توانائی کے شعبے عام عوام کی پہنچ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ عالمی سرمایہ دارانہ رجحانات کی طرح پاکستان میں بھی "ریاست کی چھوٹی حکومت" کے نعرے کے تحت فلاحی اخراجات کم کیے جا رہے ہیں، جبکہ بڑے کاروباری اداروں کو مزید مواقع دیے جا رہے ہیں۔
جس طرح مغربی دنیا میں میڈیا اور سوشل میڈیا پر چند مخصوص افراد کا غلبہ ہے، پاکستان میں بھی میڈیا مالکان اور ایڈیٹوریل پالیسی مخصوص ایجنڈوں کے تابع دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان میں چند مخصوص خاندان میڈیا انڈسٹری پر قابض ہیں، جو عوامی مسائل پر کم اور طاقتور طبقات کے مفادات کے تحفظ پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ یہ میڈیا عام آدمی کو درپیش اصل مسائل سے ہٹا کر غیر ضروری تنازعات میں الجھانے کی پالیسی پر عمل کرتا ہے۔ بڑے سرمایہ داروں اور طاقتور سیاسی شخصیات کے خلاف کوئی بھی خبر آسانی سے نشر نہیں کی جا سکتی، جبکہ عام آدمی کی آواز کو دبانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔
یہی وہ وقت ہے جب عوام کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ طاقت اور دولت چند مخصوص ہاتھوں میں مرکوز ہو رہی ہے، اور اگر اس کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی تو آنے والے وقت میں وسائل کا حصول عام آدمی کے لیے مزید مشکل ہو جائے گا۔ جیسے مغربی دنیا میں کارپوریٹ سیاست کے خلاف شعور بیدار ہو رہا ہے، پاکستان میں بھی اس کی ضرورت ہے۔ سیاستدانوں، کاروباری اشرافیہ، اور میڈیا کے گٹھ جوڑ کو سمجھنا ضروری ہے، تاکہ عوامی طاقت کو دوبارہ بحال کیا جا سکے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے شفاف پالیسی سازی کو یقینی بنانا ہوگا، جہاں حکومتی فیصلے عوامی مفاد میں کیے جائیں اور بڑے کاروباری گروہوں کو دی جانے والی مراعات اور سبسڈیز پر کڑی نگرانی رکھی جائے۔ نجکاری کی پالیسی کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے تاکہ عوامی اداروں کو مزید موثر بنایا جا سکے اور بنیادی سہولیات ہر شہری کی پہنچ میں رہیں۔ میڈیا کو چند مخصوص سرمایہ داروں کے اثر سے آزاد کر کے حقیقی عوامی مسائل پر بحث و مباحثے کو فروغ دینا ہوگا، تاکہ عام شہری کے حقوق کا بہتر تحفظ ممکن ہو سکے۔ عوام کو درپیش اصل معاشی اور سماجی مسائل کے بارے میں شعور دینے کے لیے مؤثر مہم چلائی جائے تاکہ وہ سیاسی اور معاشی استحصال کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
پاکستان میں بھی صورتحال اسی نہج پر جا رہی ہے جس کا مغرب میں سامنا کیا جا رہا ہے۔ اگر ہم نے آج ان مسائل کو نظر انداز کیا، تو کل کے فیصلے بھی چند مخصوص ہاتھوں میں چلے جائیں گے، اور عام آدمی کے لیے ترقی کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ ہمیں اس نظام کو بدلنے کے لیے ایک منظم حکمتِ عملی اپنانا ہوگی، ورنہ دنیا برائے فروخت رہے گی، اور ہم صرف خریدار بن کر تماشہ دیکھتے رہیں گے۔
واپس کریں