دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان فیصلہ کن موڑ پر: امریکہ کا ساتھ دے یا خودمختاری کی راہ اپنائے؟
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
عالمی سیاست تیزی سے بدل رہی ہے۔ امریکہ، جو دہائیوں تک دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم رکھے ہوئے تھا، اب مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت، روس کی جارحانہ سفارتی و عسکری حکمت عملی، لاطینی امریکہ میں مدھم پڑتا ہوا امریکی اثر و رسوخ، اور مشرق وسطیٰ میں بدلتے ہوئے رجحانات ایک نئی عالمی ترتیب کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ لاطینی امریکہ میں ہمیشہ سے سامراج مخالف تحریکیں موجود رہی ہیں، مگر کولمبیا جیسے ملک میں امریکہ کے خلاف کھلم کھلا مزاحمت ایک تاریخی تبدیلی ہے۔
کولمبیا، جو 1970 اور 80 کی دہائی میں امریکی خفیہ ایجنسی اور منشیات فروشوں کا مرکز سمجھا جاتا تھا، ہمیشہ واشنگٹن کا تابع فرمان رہا ہے۔ تاہم، گستاوو پیٹرو کی قیادت میں کولمبیا ایک مختلف راستے پر گامزن ہو چکا ہے۔ وہ ماضی میں انقلابی گروہ ایم نائنٹین سے وابستہ تھے، جو طاقت کے بل بوتے پر سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے پر یقین رکھتا تھا۔ بعد ازاں، پیٹرو سوشلسٹ نظریات کی علمبردار روایتی سیاست کا حصہ بن گئے، جو امریکی مفادات سے متصادم حکمت عملیوں کے داعی تھے۔
اس تبدیلی کا واضح اظہار اس وقت ہوا جب ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے غیر قانونی تارکین وطن کو بے دخل کرنے کے لیے دو جہاز کولمبیا بھیجے، مگر پیٹرو نے انہیں اترنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ امریکہ نے ہمیشہ ان کے وسائل لوٹے ہیں، لہٰذا ہمارے لوگوں کو اب سنبھالے۔ اگرچہ دباؤ بڑھنے کے بعد پیٹرو اپنے مؤقف پر نرم پڑ گئے، مگر یہ اعلان لاطینی امریکہ میں امریکی بالادستی کو چیلنج کرنے والے بڑھتے ہوئے رجحان کی علامت ہے۔ خطے کے دیگر ممالک، خاص طور پر کیوبا، وینزویلا، نکاراگوا، میکسیکو، بولیویا، اور ہونڈوراس، واشنگٹن کی پالیسیوں کے خلاف کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ لاطینی امریکی اور کیریبیائی ممالک کی تنظیم کے صدر زیومارا کاسترو نے امریکی تجارتی پابندیوں کے خلاف اجلاس طلب کر لیا ہے اور یہاں تک کہ امریکی فوجی اڈے بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ امریکہ کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہوگا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطین کے مستقبل کے لیے جو منصوبہ پیش کیا، وہ درحقیقت غزہ کو غیر آباد کرنے کی کوشش معلوم ہوتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت مصر، اردن، اور دیگر عرب ممالک پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ غزہ کے شہریوں کو اپنے ممالک میں پناہ دیں، تاکہ اسرائیل اور امریکہ کے لیے اس علاقے کو کارپوریٹ مفادات کے تحت قابو میں لینا آسان ہو جائے۔ حیران کن طور پر، مصر اور اردن جیسے ممالک، جو ماضی میں امریکی پالیسیوں کی مخالفت سے گریز کرتے رہے ہیں، اس بار کھل کر اس منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ یہ سامراجی اثر و رسوخ میں دراڑوں کی نشاندہی کرتا ہے، جہاں پہلے عرب اتحادی مکمل طور پر امریکی پالیسیوں کے تابع نظر آتے تھے، اب وہ اپنی خودمختاری پر زور دے رہے ہیں۔
امریکہ نے مصنوعی ذہانت کے میدان میں 500 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا تاکہ چین کو پیچھے رکھا جا سکے۔ مگر ایک چینی تحقیقی ادارے نے محض 6 ملین ڈالر میں ایک اوپن سورس مصنوعی ذہانت کا نظام تیار کر لیا، جس کی کارکردگی امریکی ماڈلز کے برابر، بلکہ بعض پہلوؤں میں بہتر ثابت ہو رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بڑی امریکی اور یورپی ٹیک کمپنیوں کے حصص گرنے لگے، کیونکہ چینی سافٹ ویئر انڈسٹری اب مغرب کی اجارہ داری توڑنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ یہ امریکی معیشت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، کیونکہ ٹیکنالوجی پر مغربی ممالک کا تسلط ہمیشہ سے ان کے سامراجی نظام کا ایک بنیادی ستون رہا ہے۔
امریکی فوجی طاقت پر نظر ڈالی جائے تو آج بھی امریکہ دنیا کی سب سے بڑی اور جدید فوج رکھنے والا ملک ہے۔ اس کا دفاعی بجٹ تقریباً 900 ارب ڈالر سالانہ ہے، جو چین اور روس کے مجموعی دفاعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ امریکہ کے پاس دنیا بھر میں 750 سے زائد فوجی اڈے ہیں، جن کی مدد سے وہ کسی بھی بحران یا جنگ میں تیزی سے مداخلت کر سکتا ہے۔ تاہم، جدید جنگی ٹیکنالوجی میں روس اور چین کی پیش رفت نے امریکہ کی اس برتری کو چیلنج کر دیا ہے، خصوصاً ہائپرسونک میزائل ٹیکنالوجی میں روس کی ترقی نے امریکہ کو دفاعی پالیسی پر نظرثانی پر مجبور کر دیا ہے۔
روس اس وقت عالمی سیاست میں سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والا ملک بن چکا ہے اور اس کی فوجی صلاحیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مغربی میڈیا میں رپورٹس آ رہی ہیں کہ روسی میزائل دفاعی نظام اور ہائپرسونک ٹیکنالوجی امریکہ سے آگے جا چکی ہے، جو مستقبل کے کسی بھی تنازع میں روس کو اسٹریٹجک برتری دے سکتی ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ چین کی معیشت کو کمزور کرنے کے لیے خفیہ حیاتیاتی حملوں کا آغاز کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہ محض ایک قیاس آرائی ہے، مگر اس کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
عالمی حالات میں ان تبدیلیوں کے دوران پاکستان ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ ہمارے پاس دو راستے ہیں: پہلا راستہ یہ ہے کہ ہم امریکی جنگی ایجنڈے کا حصہ بن جائیں، جس سے وقتی طور پر کچھ معاشی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں، مگر طویل مدتی نتائج 1980 کے افغان جہاد سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم علاقائی استحکام اور خودمختاری پر زور دیں۔ اگر پاکستان چین، روس، اور لاطینی امریکہ کی طرح اپنی خارجہ پالیسی کو خودمختاری کے اصول پر استوار کرے، تو یہ قومی مفاد میں زیادہ فائدہ مند ہوگا۔
یہ حالات ایک یک قطبی دنیا سے کثیر قطبی دنیا کی طرف منتقلی کے اشارے دے رہے ہیں، جہاں امریکہ کی عالمی اجارہ داری کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ مگر یہ تبدیلی کوئی آسان عمل نہیں ہوگا۔ کہیں امریکہ پسپائی اختیار کرے گا، کہیں جارحیت بڑھائے گا۔ پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہی وقت ہے کہ وہ اپنی تاریخ کے رجحانات کے مطابق فیصلے کریں، نہ کہ مغربی طاقتوں کی خواہشات کے تحت۔ اگر ہم علاقائی تعاون، خودمختاری، اور جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری پر توجہ دیں، تو پاکستان ایک نئی عالمی ترتیب میں باوقار جگہ حاصل کر سکتا ہے۔
خارجہ پالیسی میں خودمختاری کا حصول صرف بین الاقوامی سطح پر فیصلے کرنے سے ممکن نہیں ہوگا، بلکہ اس کے لیے داخلی استحکام اور ایک مضبوط معیشت بھی ضروری ہے۔ پاکستان کو کرپشن، ادارہ جاتی کمزوری، اور پالیسیوں میں عدم تسلسل جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اگر پاکستان امریکہ سے فاصلہ اختیار کرتا ہے، تو اسے ایک متبادل اقتصادی حکمت عملی تیار کرنا ہوگی، جس میں چین، روس، اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو وسعت دینا شامل ہوگا۔
یہ تمام تبدیلیاں پاکستان کے لیے ایک اہم موقع فراہم کرتی ہیں۔ ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق لیتے ہوئے ایک نیا راستہ اختیار کرنا ہوگا، جو ہماری خودمختاری اور ترقی کو یقینی بنائے۔
واپس کریں