ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر دانشمندانہ اقدامات اور پاکستان کے لیے اس میں مضمر مواقع
خالد خان۔ کالم نگار
دنیا بھر میں دو طرح کے راہنما اور ریاستی سربراہ پائے جاتے ہیں: ترقی پسند یا رجعت پسند، دائیں یا بائیں بازو کے نظریاتی محافظ اور علمبردار ۔ امریکہ کے دوسری بار نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک تیسری طرح کے راہنما ابھر کر سامنے آ رہے ہیں جو آسانی سے سمجھ میں آنے والے بھی نہیں ہیں اور جو کسی وقت بھی کوئی بھی غیر متوقع فیصلہ کر سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے بارے میں کوئی پیشگوئی یقین کے ساتھ ناممکن سی بات ہے۔ صدر ٹرمپ اپنی سوچ کے مطابق عالمی اور امریکہ کے معاملات کو آگے بڑھانے والے وہ راہنما ہیں جو دماغ سے زیادہ جبلت پر چلتے ہیں اور اپنے فیصلوں اور پالیسیوں کے نتائج سے بے پرواہ رہتے ہیں۔ جب سے ڈونلڈ ٹرمپ امریکی سیاست کے افق پر نمودار ہوئے ہیں، امریکی عوام بحیثیت مجموعی سنجیدہ سیاست اور پختہ سیاسی فیصلوں کے بجائے جذباتیت کا شکار نظر آ رہے ہیں۔
معاشی مسائل کا شکار امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جذباتی فیصلوں کے نتیجے میں جہاں خود مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے، وہیں عالمی منظرنامے میں بھی ہولناک تبدیلیوں کا موجب بن سکتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیک جنبش قلم پڑوسی ممالک کینیڈا، میکسیکو اور عالمی حریف چین پر نئے ٹیکسز کا نفاذ کیا ہے، جس کے تحت کینیڈا اور میکسیکو سے درآمدات پر 25 فیصد جبکہ چین سے درآمدات پر 10 فیصد کے تناسب سے ٹیکسز عائد کیے گئے ہیں۔ کینیڈا اپنی کل برآمدات کا 75 فیصد امریکہ کو ارسال کر رہا ہے، جس پر آج تک کوئی ٹیکس لاگو نہیں تھا اور یوں کینیڈا کو اربوں ڈالرز کا فائدہ پہنچ رہا تھا۔ امریکیوں کے زیر استعمال گاڑیاں میکسیکو میں بنتی ہیں، جن میں مختلف کمپنیاں جیسے مزدا، ہنڈائی، نسان اور دیگر شامل ہیں، جو اپنی پیداوار کی 80 فیصد گاڑیاں امریکہ برآمد کرتی ہیں۔ پچھلے سال صرف مزدا کمپنی نے ایک لاکھ 23 ہزار گاڑیاں امریکہ میں کوئی ٹیکس ادا کیے بغیر فروخت کی تھیں۔
کم و بیش ایک صدی قبل امریکہ کی خالص آمدنی کا نصف درآمدات پر لگائے گئے مختلف ٹیکسز سے وصول ہو رہا تھا، جو اب سکڑ کر کل آمدنی کے قلیل 2 فیصد پر آ گیا ہے، جس کی وجہ سے امریکی معیشت غیر متوازن اور عدم استحکام کا شکار ہے۔
ایک اور حوصلہ شکن بات یہ ہے کہ یورپ کے ساتھ تجارت میں ہر سال امریکہ کو 350 ارب ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے، جس نے امریکی اقتصادی ماہرین کو سوچ بچار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ انہی حقائق کے پیش نظر ڈونلڈ ٹرمپ کینیڈا، میکسیکو اور چین کی درآمداتی اشیاء پر علی الترتیب 25 اور 10 فیصد درآمداتی ٹیکس لگانے پر مجبور ہوگئے ۔ جہاں ایک طرف امریکی معیشت اس اقدام سے سنبھالا لے گی جو قرین قیاس نہیں ہے، وہیں ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ فیصلہ کینیڈا اور میکسیکو میں معاشی بحران کو جنم دے گا۔ ان دونوں ممالک میں عام شہریوں کا معیارِ زندگی یکدم متاثر ہوگا، جبکہ حکومتوں پر دباؤ بڑھنے کی وجہ سے سیاسی انتشار پیدا ہونے کے بھی قوی امکانات ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ دو ٹوک فیصلہ بھی کیا ہے کہ دنیا کے جن ممالک نے بھی ناجائز، غیر اخلاقی اور غیر قانونی طریقوں سے جو بھی پیسہ اکٹھا کیا ہے اور اس کالے دھن کو امریکی مفادات کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، ان کے خلاف بھی ٹھوس کارروائیاں کی جائیں گی۔
اگرچہ تادمِ تحریر پاکستان پر کوئی پابندیاں نہیں لگائی گئی ہیں، مگر اس خطرے کو خارج از امکان بھی قرار نہیں دیا جا سکتا کہ آنے والے دنوں میں صدر ٹرمپ اسے اپنا ہدف نہیں بنائیں گے۔ اگرچہ صدر ٹرمپ نے پاکستان کے خدشات کو درست قرار دیتے ہوئے افغانستان سے امریکہ کے اسلحے کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے، جو امریکہ اور نیٹو نے افغانستان سے انخلا کے وقت طالبان کی عبوری حکومت کی تحویل میں دیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اپنی حلف برداری کی تقریب کے موقع پر طالبان کی عبوری حکومت کو مزید ادائیگیاں اس وقت تک روکنے کا اعادہ کیا تھا جب تک افغان عبوری حکومت تمام جنگی اسلحہ اور سازوسامان امریکہ کو نہیں لوٹاتی۔ صدر ٹرمپ کے اس بیان پر شدید ردِ عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغان عبوری حکومت نے اسے ناقابلِ عمل قرار دیا تھا، بلکہ انہوں نے امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ افغانستان کے منجمد اکاؤنٹس میں پڑے ہوئے خطیر ڈالرز فی الفور افغانستان کو ادا کیے جائیں۔
اس ضمن میں پائی جانے والی تشویش اور صورتحال پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کے فروری میں چین کے مقررہ دورے کے بعد واضح ہوگی کہ یہ معاملہ کیا حتمی شکل اختیار کرتا ہے۔ اگرچہ چین کی درآمداتی اشیاء پر ٹیکس لگانے کے صدر ٹرمپ کے فیصلے پر حسبِ معمول کوئی واضح مؤقف سامنے نہیں آیا ہے، لیکن کینیڈا اور میکسیکو نے بھی جوابی طور پر امریکی مصنوعات پر ٹیکس لگائے ہیں، جو اقتصادی ردِ عمل سے زیادہ سیاسی فیصلہ ہے۔
چونکہ دنیا نظریات کے گرد نہیں بلکہ معاشی مدار میں گھومتی ہے، لہٰذا چین ان ٹیکسز کے نفاذ کے جواب میں دو طرح کی حکمتِ عملیاں اپنا سکتا ہے۔ چین اپنی برآمدات امریکہ اور یورپ کے اثرپزیری سے نسبتاً آزاد ممالک کے ساتھ بڑھائے گا، جس سے پاکستان کو درآمدات اور برآمدات دونوں کو متوازن کرنے کے مواقع ملیں گے، بلکہ ادائیگیوں کا کوئی نیا طریقہ کار بھی وضع کرنے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درآمداتی ٹیکس لگانے کا فائدہ ایک طرح سے چین ہی کو ہوگا، کیونکہ کینیڈا اور میکسیکو مصنوعات کی کم لاگت میں چین کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ اگر صدر ٹرمپ یہی پالیسی دوسرے ممالک پر بھی نافذ کرتے ہیں تو اس کا فائدہ بھی چین ہی کو ہوگا۔
جب تک امریکہ عالمی جنگوں اور طرفداریوں سے دستبردار نہیں ہوتا، صدر ٹرمپ کی معاشی پالیسیاں کبھی بھی امریکہ کو اقتصادی تحفظ نہیں دے سکتیں۔ صدر ٹرمپ کی اقتصادی اصلاحات اگرچہ ان کے ووٹرز کو مباحثوں کے لیے مواد فراہم کر سکتی ہیں، مگر عام امریکیوں کے لیے اس کے فوائد نہ ہونے کے برابر ہوں گے۔ صدر ٹرمپ کے جذباتی اور غیر حقیقت پسندانہ فیصلے چین کو دنیا اور خصوصاً خطے میں اقتصادی اور سیاسی طور پر مضبوط ہونے کے بھرپور مواقع فراہم کریں گے، البتہ پاکستان کو اس سے مستفید ہونے کے لیے اچھی طرزِ حکمرانی کے ساتھ ساتھ بنیادی قوانین میں تبدیلیاں، اصلاحات، سیاسی ہم آہنگی اور قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی۔
دوسری جانب دہشت گردی پر قابو پانے اور افغان عبوری حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان کی کامیابیاں اس صورت میں ٹھوس اور یقینی ہوں گی جب پاکستان بنیادی ریاستی ڈھانچے کو جدید دنیا کے ہم آہنگ کرے گا، جس کے لیے انتہائی نظم و ضبط اور ڈسپلن کی ضرورت ہے۔
واپس کریں