دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ابھرتا ہوا بحران اور پاکستان، افغانستان، خیبرپختونخوا اور بلوچستان پر اثرات
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
ماحولیاتی تبدیلی اب آنے والی نسلوں کے لیے ایک دور کا مسئلہ نہیں رہا، بلکہ یہ ایک فوری اور سنجیدہ بحران بن چکا ہے جو زمین پر زندگی کے تمام پہلوؤں کو بدل رہا ہے۔ اگرچہ زمین کا موسم ہمیشہ قدرتی تغیرات سے گزرتا رہا ہے، لیکن موجودہ تبدیلیوں کی رفتار اور شدت بے مثال ہے، اور اس کی بنیادی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں۔ پچھلی صدی میں انسانوں کے پیدا کردہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ جیسے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج نے زمین کے درجہ حرارت کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے، اور اس کے اثرات ہر براعظم پر واضح طور پر نظر آ رہے ہیں۔
سائنسی تحقیق مسلسل بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، انتہائی موسمی حالات اور سمندری سطحوں کے بلند ہونے کے خوفناک رجحانات کی نشاندہی کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پینل (IPCC) کے مطابق، صنعتی انقلاب سے پہلے کے دور کے مقابلے میں عالمی درجہ حرارت پہلے ہی تقریباً 1.1 ڈگری سیلسیئس بڑھ چکا ہے، اور اگر موجودہ رجحانات جاری رہے تو یہ 2030 تک 1.5 ڈگری تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ تبدیلی بظاہر معمولی لگتی ہے، لیکن اس کے اثرات انتہائی گہرے ہیں، جیسے کہ گرمی کی لہروں میں شدت، ماحولیاتی نظام کی تباہی، زراعت اور پانی کے وسائل کا بحران۔
ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کئی شکلوں میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ سب سے نمایاں اثرات میں شدید موسمی حالات کا اضافہ ہے، جن میں گرمی کی لہریں، طوفان، سیلاب، اور خشک سالی شامل ہیں۔ عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO) کے اعداد و شمار کے مطابق، 1970 کی دہائی کے بعد سے شدید موسمی واقعات کی تعداد پانچ گنا بڑھ چکی ہے، اور ان میں سے کئی معتدل علاقوں میں بھی نمایاں ہو چکے ہیں۔
پاکستان، خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان جیسے علاقے، ماحولیاتی تبدیلی کے شدید اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا، جو اپنی زرعی معیشت کے لیے جانا جاتا ہے، شدید گرمی کی لہروں اور غیر متوقع بارشوں کے اثرات کا شکار ہے، جو فصلوں کی پیداوار اور پانی کی دستیابی کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔ بلوچستان میں صورتحال مزید تشویشناک ہے، جہاں طویل خشک سالی، شدید درجہ حرارت اور پانی کی قلت لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ افغانستان، جو ان علاقوں کے ساتھ سرحد رکھتا ہے، بھی ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ہے، اور اس کی زراعت پہلے سے ہی خطرناک حد تک غیر مستحکم ہے۔
زرعی پیداوار بھی ماحولیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہو رہی ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث کئی علاقوں میں فصلوں کی پیداوار کم ہو رہی ہے، خاص طور پر افریقہ جیسے خطوں میں جہاں زراعت بنیادی ذریعہ معاش ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ حالات جاری رہے تو 2050 تک زراعت میں پیداوار 50 فیصد تک کم ہو سکتی ہے، جس سے کروڑوں افراد کی خوراک کی ضروریات پوری کرنا مشکل ہو جائے گا۔
ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات نہ صرف ماحولیاتی بلکہ اقتصادی اور سماجی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک، خاص طور پر وہ جو گلوبل ساؤتھ میں واقع ہیں، سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، دنیا کی سب سے غریب آبادی کا 70 فیصد ان علاقوں میں رہتا ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کے لحاظ سے انتہائی خطرے میں ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی کے باعث نقل مکانی بھی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ جیسے جیسے علاقے شدید گرمی، سیلاب یا خشک سالی کی وجہ سے ناقابل رہائش ہو رہے ہیں، لاکھوں لوگ محفوظ مقامات کی تلاش میں ہجرت پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (UNHCR) کے اندازے کے مطابق، 2050 تک ماحولیاتی نقل مکانی 20 کروڑ افراد تک پہنچ سکتی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری نے کئی اقدامات کیے ہیں۔ 2015 کے پیرس معاہدے میں طے پایا کہ عالمی درجہ حرارت کو صنعتی انقلاب سے پہلے کے درجے سے 2 ڈگری نیچے رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ تاہم، ان اہداف کو پورا کرنے میں پیش رفت اب بھی سست ہے، اور کئی ممالک اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
حقیقی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ حکومتیں، کاروبار، اور افراد مل کر کام کریں۔ قابل تجدید توانائی کے ذرائع، جدید زراعت، اور پائیدار ترقی کی حکمت عملیوں کو اپنانا وقت کی ضرورت ہے۔ لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ ہم اپنی زمین کو بچانے کے لیے فوری اور جرات مندانہ اقدامات کریں، تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ مستقبل کو یقینی بنایا جا سکے۔
واپس کریں