خالد خان۔ کالم نگار
دنیا میں سچ کے مقابلے میں جھوٹ زیادہ بولا جاتا ہے۔ سب سے بڑا جھوٹ تو یہ ہے کہ "جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے"۔ جھوٹ کے پاؤں تو کیا، جھوٹ کے ہاتھ اور زبان بھی ہوتے ہیں اور اگر جھوٹ کا کوئی عضو نہیں ہوتا تو وہ "دماغ" ہوتا ہے۔ جھوٹ میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ جھوٹ اقتدار دلواتا ہے۔ جھوٹ حکومت بناتا ہے۔ جھوٹ حکومت چلاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو نہ عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم بنتے اور نہ ہی خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت مسلسل تیسری بار بنتی۔ جو جھوٹ بولتے ہیں انہیں جھوٹا کہا جاتا ہے اور یوں ہمارے اوپر جھوٹوں کی حکمرانی ہوتی ہے۔ جھوٹ کیا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک کی زبانوں میں جھوٹ کو کیا کہا جاتا ہے، پہلے اس کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر پاکستان کے جھوٹ اور جھوٹوں پر بات کرتے ہیں۔
دنیا کی مختلف زبانوں میں جھوٹ کو جو نام دیے گئے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں کہ عربی میں جھوٹ کو "كذبة" (کذبہ)، فرانسیسی میں "Mensonge"، جرمن میں "Lüge"، ہسپانوی میں "Mentira"، جبکہ اطالوی لوگ جھوٹ کو "Bugia" کہتے ہیں۔ روسی زبان میں جھوٹ کو "Ложь" (لوژ) کا نام دیا گیا ہے، جبکہ چینی میں اسے (Mandarin) "谎言" (Huǎngyán) کہا جاتا ہے۔ جاپان میں جھوٹ کو "嘘" (Uso)، ترکی میں "Yalan"، سواحلی میں "Uongo"، پرتگالی میں "Mentira"، اور ڈچ میں "Leugen" کہتے ہیں۔ کورین میں جھوٹ کو "거짓말" (Geojinmal) کہا جاتا ہے، جبکہ یونانی میں اسے "Ψέμα" (Psema)، بنگالی میں "মিথ্যা" (Mithya)، اور عبرانی زبان میں جھوٹ کو "שקר" (Sheker) کہتے ہیں۔
وطن عزیز پاکستان میں جھوٹ کو لغت میں "پاکستان تحریک انصاف" کہا جاتا ہے، جبکہ عوامی زبان میں جھوٹ کو "عمران خان" کے نام سے جانا جاتا ہے۔
زیر نظر مضمون میں پاکستان تحریک انصاف کے قیام سے لے کر تا دمِ تحریر ہم عمران خان کے کسی بھی جھوٹ کا ذکر نہیں کریں گے کیونکہ اب سب کچھ اظہر من الشمس ہے۔ ہم پاکستان تحریک انصاف کے نام پر بات کریں گے، جو جھوٹ کی ماں ہے، سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ پارٹی کے لیے نام سوچتے ہوئے خان صاحب کے ذہن میں "انصاف" کا نام شاید اس لیے آیا ہوگا کہ انہیں انصاف کی اہمیت اور افادیت کا پتہ تھا۔ جیسے خان صاحب کو ادراک تھا، اسی طرح ہر پاکستانی اور خصوصاً ہر نوجوان جانتا تھا کہ پاکستان میں انصاف عنقا ہے۔ معاشی انصاف، سماجی انصاف اور عدالتی انصاف سے لے کر ہر ریاستی سطح اور ادارے میں انصاف کا حصول گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ آج مجھے یہی لگتا ہے کہ عوام کی اسی نفسیاتی کمزوری سے کھیلتے ہوئے خان صاحب نے پارٹی کا نام پاکستان تحریک انصاف چنا تھا۔ خان صاحب نے اقتدار میں آ کر اسی انصاف کا ستیاناس کیا، جو انصاف ان کے ہاتھ میں ٹرمپ کا پتہ تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ آج ٹرمپ کے اس پتے کے، خان صاحب کو تمام امیدیں ڈونلڈ ٹرمپ سے ہیں۔ وزیر اعظم بننے کے بعد سماجی، اقتصادی اور عدالتی عدم انصاف کے بارے میں کچھ بھی نہیں کیا۔ نہ کوئی قانون سازی، نہ کوئی سوچ بچار، نہ کوئی تگ و دو۔ کچھ بھی تو نہیں کیا۔ تمام معاشرتی برائیوں کی بنیادی وجہ سماج میں روایتی انصاف کی عدم فراہمی اور یک رخی ہے۔ انصاف مکڑی کا جالا ہے جسے طاقتور پھاڑ کر رکھتے ہیں اور جس میں کمزور زندگی بھر مقید رہتے ہیں۔ خان صاحب جب طاقت میں تھے تو مکڑی کے اس جالے کو دن میں دس مرتبہ چھیرتے پھاڑتے رہتے تھے، مگر آج جب طاقت کے ایوانوں سے دھتکارے جا چکے ہیں تو اسی قانون کا رونا روتے ہیں جو کبھی ان کی کنیز ہوا کرتی تھی۔ خان صاحب یہی ہوتا ہے جھوٹ کا انجام اور یہی ہوتی ہے جھوٹے کی سزا۔ انصاف کے نام پر اگر جھوٹ نہیں بولا ہوتا اور عدالتی اصلاحات کر چکے ہوتے تو آج عدلیہ کو نہیں کوستے۔ جیسا کرو گے، ویسا بھرو گے۔ ہم تو عدالت کو تب بھی معزز سمجھتے تھے جب آپ کو صادق اور امین کا سند عطا کر چکی تھی۔ ہم تو عدلیہ کو آج بھی معزز سمجھتے ہیں جو آپ کو مصدقہ چور اور جھوٹا قرار دے چکی ہے۔ عدالت اور عدالتی نظام درحقیقت کیا ہے، یہ وہی جانتے ہیں جن کا انصاف کی ان غلام گردشوں میں راستہ چھوٹتا ہے۔ عظمیٰ سے عالیہ اور عالیہ سے نچلی سطح تک اس عدالتی نظام میں ننگوں کا راج ہے۔ ننگے جنہیں اپنے علاوہ ہر ایک برہنہ نظر آتا ہے۔ خان صاحب، عدالتی ننگے پن کو اپنے زمانے میں ڈھانپتے تو آج یوں برہنہ ہو کر ذلیل نہیں ہوتے۔
واپس کریں