خالد خان۔ کالم نگار
اقوام کی ترقی اور زوال کی بنیادی وجہ قانون کا احترام اور قانون پر عمل در آمد ہوتا ہے۔ قانون کی ایک خصوصیت عالمگیر ہے کہ وہ سب کے لیئے برابر ہوتی ہے۔آپ کوئی بھی مہذب اور ترقی یافتہ ملک دیکھ لیجئے وہاں قانون شاہ اور گدا کو ایک ہی نظر سے دیکھے گا۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں قانون موم کی ناک ہے جسے جسطرف چاہے موڑا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں قانون مکھڑی کا جالہ ہے جس میں کمزور پھنستے ہیں اور طاقتور اسے پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ قانون کی نازکی کی تازہ ترین مثال 190 ملین پاونڈ کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اور سابقہ وزیر اعظم عمران خان اور انکی اہلیہ بشر بی بی کے خلاف احتساب عدالت اسلام آباد کا حالیہ فیصلہ ہے جس میں خان صاحب اور انکی زوجہ کو علی الترتیب 14 اور 7 سال قید بامشقت کی سزائیں سنائی گئی ہیں جبکہ 10 لاکھ اور 5 لاکھ جرمانہ اسکے علاوہ ہے جسکی عدم ادائیگی پر خان صاحب کو مزید 6 مہینے اور انکی بیگم کو 3 مہینے سزا کاٹنی پڑیگی۔ عمران خان صاحب کو معزز عدالت نے 10 سال کے لیے انتخابات میں حصہ لینے سے نا اہل بھی قرار دیا جبکہ القادر یونیورسٹی کی ملکیت حکومت پاکستان کے حوالے کی گئی۔ عدالتی فیصلے سے قطع نظر اور اسکے حق اور مخالفت میں تبصروں اور تجزیوں کے برعکس ایک اور اعتراض جو دبے لفظوں میں سوشل میڈیا پر اٹھایا گیا ہے وہ اس کیس کے مرکزی کردار ملک ریاض سے سرکار، ریاست اور عدالت کی چشم پوشی ہے۔ ملک ریاض کے علاوہ فرح گوگی اور زلفی بخاری بھی وہ دو ملوث کردار ہیں جن سے صرف نظر کیا گیا ہے۔ ملک ریاض کے صاحبزادے احمد علی ریاض جنہوں نے میاں محمد نواز شریف کے فرزند حسین نواز سے انکی پراپرٹی واقع 1 ہائیڈ پارک لندن دگنی قیمت پر خریدی تھی کا ذکر ہی سرے سے غائب ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ جنرل فیض حمید اور عمران خان ذاتی وجوہات کی بنا پر میاں محمد نواز شریف کی سیاست اور ثروت کو ختم کرنا چاہتے تھے لیکن باوجود کوشش کے انہیں کوئی ایسا مواد نہیں مل رہا تھا کہ جس سے ثبوت کے طور پر فائدہ اٹھایا جاسکے۔ سوچ بچار کے بعد جنرل فیض حمید نے عمران خان کو یہ راہ سجھائی کہ میاں نواز شریف کے بیٹے حسین نواز کو لالچ دیکر اسے ملک ریاض کی مدد سے پھنساتے ہیں جسکے نتیجے میں ہمیں ناقابل تردید ثبوت اور شواہد مل جائینگے۔طے یہ ہوا کہ حسین نواز کی لندن کی مذکورہ جائداد جسکی مالیت 9 ارب ہے کی دوگنی قیمت لگا کر اسے 18 ارب کی پیشکش کرتے ہیں۔ ملک ریاض کے بیٹے احمد علی ریاض نے منصوبے کے مطابق حسین نواز کے ساتھ 18 ارب میں سودا طے کیا اور ادائیگی کر دی گئی۔ سودے کے بعد پاکستان تحریک انصاف انگلینڈ نے برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کو درخواست دی جس میں کہا گیا کہ حسین نواز نے یہ جائیداد کالے دھن کے ذریعے بنائی تھی اور چوری کے یہ پیسے پاکستان سے غیر قانونی ذرائع سے منگوائے گئے تھے۔ نیشنل کرائم ایجنسی نے حسین نواز سے تحقیقات کیں اور حسین نواز نے پیسے کمانے اور قانونی طور پر لندن منتقل کرنے کے تمام تر ثبوت نیشنل کرائم ایجنسی کے حوالے کیئے جو درست پائے گئے۔ نیشنل کرائم ایجنسی درخواست کنندہ کی طرف متوجہ ہوگئی اور غلط درخواست دینے کی وجوہات کی چھان بین کا آغاز کر دیا۔تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا کہ ملک ریاض کے صاحبزادے کی ادا کی گئی رقم نہ صرف یہ کہ کالا دھن تھی بلکہ وہ غیر قانونی ذرائع سے برطانیہ منتقل کی گئی تھی۔ تحقیقات کے دوران ملک ریاض کے بیٹے کے مزید 8 اکاونٹس بھی سامنے اگئے جس میں 500 ملین پاؤنڈز کی خطیر رقم موجود تھی۔ نیشنل کرائم ایجنسی نے ان تمام اکاونٹس کو منجمد کرتے ہوئے باضابطہ طور پر ملک ریاض کے بیٹے کے خلاف کیس درج کیا۔تب تک عمران خان وزیراعظم پاکستان بن چکے تھے جنہوں نے ان خدمات کے عوض ملک ریاض کے ساتھ بحریہ ٹاون پشاور کے لیئے این او سی جاری کرنے اور دیگر متعدد سہولت کاریوں کا وعدہ کیا تھا ۔ ملک ریاض نے اس مشکل صورتحال میں عمران خان سے رابطہ کیا اور خان صاحب نے معاملات کو سلجھانے کے لیئے شہزاد اکبر کو لندن بھیج دیا۔ باہمی مشاورت کے بعد ملک ریاض کے صاحبزادے احمد علی ریاض نے نیشنل کرائم ایجنسی کو ایک ڈیل آفر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ایک کاروباری شخص ہونے کے ناطے وہ عدالتی جنگ میں وقت اور وسائل ضائع نہیں کرسکتا اور نیشنل کرائم ایجنسی 190 ملین پاؤنڈز لیکر یہ کیس ختم کر دے۔ نیز اس معاہدے کو صیغہ راز میں بھی رکھا جائے۔ نیشنل کرائم ایجنسی نے پاکستان کو ایک مکتوب کے ذریعے ساری صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان عدالت میں اس کیس کو لیکر جاتا ہے تو پاکستان کو 500 ملین پاؤنڈز ادا کر دیئے جائینگے اور اگر پاکستان عدالت سے بالا بالا کوئی تصفیہ کرنا چاہتا ہے تو 190 ملین پاؤنڈز کی ادائیگی کی جائی گی۔ خان صاحب گویا اسی انتظار میں تھے اور 190 ملین پاؤنڈز کی پیشکش فورا سے پیشتر قبول کی۔ خان صاحب نے 190 ملین پاؤنڈز کی ادائیگی کے لیئے بجائے حکومت پاکستان کا اکاؤنٹ نمبر دینے کا سپریم کورٹ کے اس اکاونٹ کا نمبر دے دیا جسے سپریم کورٹ نے ملک ریاض کے جرمانہ وصولی کے لیئے کھول رکھا تھا۔ ملک ریاض کو بحریہ کراچی میں کرپشن کے الزامات کے تحت 460 ارب جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی جسکے لیئے مذکورہ اکاونٹ کھول دیا گیا تھا جو سپریم کورٹ کا معمول کا طریقہ کار ہے۔ یوں بجائے قومی خزانے کے 190 ملین پاؤنڈز ملک ریاض کے جرمانے کی مد میں جمع کیئے گئے۔ اس خدمت کے عوض دیگر ادائیگیوں کے علاوہ القادر یونیورسٹی کے لیئے ملک ریاض نے زمین عطیہ کی۔ اس سارے تفصیل کے بعد یقینا آپ کے زہنوں میں بھی یہ سوال اٹھ چکا ہوگا کہ اس سارے کیس کے مرکزی بینفشری ملک ریاض کیونکر سزا سے بچ گئے؟ ملک ریاض کے صاحبزادے احمد علی ریاض جنہوں نے یہ ڈیل کی تھی اور رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے انہیں کیونکر کلین چئٹ دے دی گئی؟ اس کیس کے دو دیگر دلال کردار فرح گوگی اور زلفی بخاری کسطرح اپنی چمڑی بچا گئے؟ اس جرم میں بھرپور معاونت کرنے والے شہزاد اکبر کو کیوں بخشا گیا؟ بجائے 500 ملین پاؤنڈز کے 190 ملین پاؤنڈز کا ریفرنس قومی احتساب بیورو نے کیوں اور کس کے کہنے پر جمع کیا؟ جنرل فیض حمید جو اس سارے فراڈ کے سکرپٹ رائیٹر اور سہولت کار تھے، انہیں کیوں عدالتی کھیل سے باہر رکھا گیا؟ اور آخری اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ قومی میڈیا اس سارے گیم پر کیوں اور کس کے کہنے پر خاموش ہے؟
سوالات یہ بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ ملک ریاض آخر قانون سے کیوں بالاتر ہے؟ کیا ملک ریاض نے جسطرح دھمکی دی تھی کہ اگر اسے چھوا بھی گیا تو وہ بہت کچھ بلکہ سب کچھ اگل دے گا۔ کیا اس حمام میں سب ننگے ہیں؟ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اتنے بڑے کیس میں اتنی کم سزائیں کیوں دی گئی؟ اور سوال یہ بھی چھبتا ہے کہ قومی احتساب بیورو نے تادم تحریر دی جانی والی کم سزاوں کے خلاف اور ان میں اضافے کے لیئے اپیل میں جانے کا اعلان کیوں نہیں کیا ہے؟
ان سارے سوالوں کے جواب بہت سادہ اور آسان ہیں۔ ملک ریاض کے ملازمین کی فوج ظفر موج کی فہرست پر نظر ڈالی جائے اور دیکھا جائے کہ کس محکمے سے کس رینک کے کتنے ریٹائرڈ ملازمین اسکی خدمت پر مامور ہیں۔ اسکے بعد کہانی کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں رہی گی۔ عوام کے ذہن تو کلیئر ہوجائینگے مگر خواص کے ذہن جب تک اس بات کو قبول نہیں کرینگے کہ قانون موم کی ناک نہیں ہے اور قانون کے نظروں میں سب برابر ہیں، پاکستان لٹتا رہے گا اور ہم تماشا دیکھتے رہینگے۔
واپس کریں