دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
تین یلغاریں ؛ ایک تلوار،کرم ہے پاکستان پر وار
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
ریاست کا کوئی مذہب اور مسلک نہیں ہوتا بلکہ چند اساسی اصول اور قوانین ہوتے ہیں جس پر دیس چلتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔ انہی اساسی اصولوں اور قوانین کا احترام امن ، ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہوتا ہے۔ ان اصولوں اور قوانین کی پاسداری کرنے والے پرامن اور محب وطن شہری کہلاتے ہیں جبکہ ان اصولوں اور قوانین سے نفرت کرنے والے اور انہیں روندنے والے بلاشبہ دہشت گرد اور ملک دشمن قرار دیئے جاتے ہیں۔ ملک میں یقینا مختلف مذاہب ، عقائد اور مسلکوں کے لوگ رہتے ہیں مگر وہ انکے ذاتی عقائد اور نظریات ہوتے ہیں جبکہ ملکی قوانین سب پر یکساں لاگوں ہوتے ہیں۔ ہر ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے آئین کے مطابق تمام مذاہب ، عقائد اور فرقوں کے لیئے وہ پرامن ماحول مہیا کرے جس میں سکون اور شائستگی کے ساتھ وہ اپنا زیست و روزگار کرسکیں۔ ان تمام اساسی قوانین کے نفاذ کرنے والوں اور انکے رکھوالوں کو آسان زبان میں اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی اسکی اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو سانسیں مقننہ مہیا کرتی ہیں جبکہ اسکے دست و بازوں مختلف ریاستی ادارے ہوتے ہیں۔ عوام ، ریاست ، مقننہ اور ادارے جب ہم اہنگی کے ساتھ ملکر چلتے ہیں تو معاشرے میں امن اور قانون کی حکمرانی ہوتی ہے اور اقوام ترقی کرتے ہوئے عالمی برادری میں اپنا ممتاز مقام حاصل کرتے ہیں۔ جب بھی اس ہم آہنگی میں انتشار کی صورت پیدا ہوتی ہے ، سمتیں بدلتی ہیں تو اقوام اور ممالک کے شیرازے بکھرتے ہیں۔ اس انتشار کا قلع قمع کرنے کے لیئے ریاست کی جو سب سے مضبوط قوت میدان میں اترتی ہے تو وہ فوج اور سیکیورٹی ادارے ہوتے ہیں۔ بیرونی اور اندرونی دشمن جب بھی کسی ملک اور قوم پر وار کرتے ہیں تو پہلے ہلے میں وہ اسی مضبوط قوت کو نشانہ بناتے ہیں جو انکی مذموم مقاصد کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ بلکہ سیسہ پھیلائی ہوئی دیوار ہوتی ہے۔ دشمن قوتیں اسکے لیئے جامع منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ ایک طرف وہ قوم کو مذاہب ، فرقوں ، عقائد، سیاسی نظریات ، قومیت، لسانیت ، قبائلیت ، عصبیت اور اس طرح کے دیگر حرافات میں تقسیم کرتی ہے اور دوسری جانب انہیں اپنی افواج اور سیکیورٹی اداروں سے متنفر کرنے کی بھرپور اور مذموم کوشش کرتی ہے۔ عوام اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کے لیئے جھوٹ ، بہتان ، الزام تراشیاں، منفی پراپیگنڈا اور مکرو ریا کے ہتھکنڈے استعمال کیئے جاتے ہیں۔ دشمن قوتیں سیاسی انتشار کو ہوا دیتے ہوئے ملکی امن و امان اور معیشت پر کاری ضرب لگانےکی ناپاک کوشش کرتی ہے۔ مختلف جارحانہ افکار کی تبلیغ کرتے ہوئے اور خود ساختہ مذہبی توجیحات پیش کرتے ہوئے بعض ناعاقبت اندیشوں کے ہاتھوں میں بندوقیں تمھاتے ہوئے انہیں ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف صف آراء کرتے ہیں۔ ائیئے اب اسی تناظر میں وطن عزیر پاکستان کی موجودہ صورتحال اور خصوصا کرم کے حالات کو زیر بحث لاتے ہوئے اندرونی اور بیرونی سازشوں اور اس کو ناکام بنانے کی ایک نیک سعی کرتے ہیں۔
پاکستان کے خلاف جن تین محاذوں پر سازشیں جاری ہیں ائیئے پہلے ان کا جائزہ لیتے ہیں۔
سیاسی محاذ : اگر چہ گزشتہ 75 سالوں میں پاکستان کا سیاسی محاذ نہ ہی پرسکون رہا ہے اور نہ ہی سیاسی بصیرت، پختگی اور حب الوطنی نے وطن عزیز کے لیئے کوئی قابل قدر کارنامہ سرانجام دیا ہے بلکہ ہمیشہ انتشار، فشار اور تقسیم در تقسیم کے منصوبوں میں آلہ کار بنی رہی ہے۔ دور حاضر کے پاکستان تحریک انصاف کی انتشاری اور تخریبی سیاست اسکی سب سے بڑی اور زندہ مثال ہے جس پر گفتگو وقت کا ضیاع ہے کیونکہ اب سب کچھ ہر ایک پر واضح ہوچکا ہے۔
معاشی عدم استحکام : سیاسی عدم استحکام اور انتشار کا پہلا نتیجہ معاشی عدم استحکام پر منتج ہوتا ہے۔ معاشی ترقی کے لیئے اولین شرائط میں سیاسی استحکام ، امن اور ریاستی اداروں کی اپنے مینڈیٹ کے مطابق پیشہ ورانہ طریقے سے اپنے فرائض منصبی انجام دینا ہوتا ہے جو سیاسی عدم استحکام کے باعث عضو معطل بن کر رہ جاتے ہیں اور بجائے آگے بڑھنے کے اقتصادی پہیہ پیچھے کی طرف چلنا شروع کرتا ہے۔
معاشی بدخالی جہاں زندگی کو اجیرن کرتی ہے وہاں مایوسیوں کو جنم دیتی ہے جس سے فائدہ اٹھانے کے لیئے ملک دشمن قوتیں تیار رہتی ہیں۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مذہب ، عقائد، فرقہ ، مسلک ، قبائلیت ، عصبیت اور قومیت کی آڑ لیتے ہوئے دو دھاری تلواروں کو ملک اور قوم پر چلانا شروع کیا جاتا ہے۔ یہ دو دھاری تلوار سیاسی کاٹ بھی رکھتی ہے اور تخریبی قوت سے بھی مسلح ہوتی ہے۔ یوں اس طرح کی تمام تحریکیں خواہ وہ بظاہر سیاسی ، آئینی اور قانونی کیونکر نہ نظر آتی ہوں درحقیقت ملک دشمن قوتیں ہی ہوتی ہیں جسے بڑی آسانی کے ساتھ دہشت گرد گردانا جاسکتا ہے۔
دہشت گردی : اب تک ہم بہتر طریقے سے ساری صورتحال کو سمجھ چکے ہیں اور اب ہم انتہائی آسانی کے ساتھ ان تمام حقائق کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں۔ سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے نتیجے میں ریاست کے اندر دشمن قوتیں بیرونی آقاؤں کے اشارے اور مدد کے ساتھ تخریبی کاروائیوں کو بڑھاوا دیتی ہیں جس سے مزید نقصان ہوتا ہے اور قوم میں مایوسی پھیلتی ہے۔دوسری جانب عالمی سطح پر وطن عزیز کا روشن چہرہ مسخ کرکے پیش کیئے جانے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے استفادہ حاصل کرنے کے لیئے بیرونی قوتیں تیار بیٹھی ہوئی ہوتی ہیں جو مجموعی صورتحال کو گھمبیر بناتے ہوئے مقامی اسٹیبلشمنٹ پر دباو بڑھاتی ہے۔
کرم اور درپیش چیلنجز : اب ہم بیان کردہ حقائق کی روشنی میں کرم کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں جو اپنے اندر کئی طوفان لیئے ہوئی ہے۔ کرم کی صورتحال کئی حوالے سے پیچیدہ ہے مگر مشکل قطعا بھی نہیں ہے اور کرم کے حالات پر آسانی کے ساتھ قابو پایا جاسکتا ہے۔ پہلے ہم کرم کے حساسیت پر بات کرتے ہیں اور پھر اس ساری صورتحال سے نبرد آزما ہونے کے لیئے چند تجاویز پیش کرینگے۔ اگر چہ کرم میں بنیادی مسلہ شیعہ، سنی کی آپس میں خونی چپقلش ہے لیکن کئی حوالوں سے ملک کے دیگر شیعہ سنی تناو سے یہ کئی لحاظ سے مختلف ہے۔ کرم کے اہل تشیع اور سنی دونوں نجیب الطرفین پشتون ہیں جو خونی، قبائلی اور تاریخی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں مگر مذہبی تعصب کے زیر اثر نہ صرف یہ کہ دونوں فریقین ان رشتوں کو جھٹلاتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے خون کے ہیاسے بنے ہوئے ہیں۔ فرقہ واریت کرم میں صرف فرقہ پرستی اور مسلکی دشمنی تک محدود نہیں رہی ہے بلکہ اس نے قبائلی پشتون دشمنی کی شکل اختیار کی ہوئی ہے کہ جہاں روائتی طور پر اگر ہزار سال بعد بھی کوئی جان کے بدلے جان لیتا ہے تو بہی خواہ اسے کہتے ہیں کہ اتنی جلد بازی کی کیا ضرورت تھی۔ کرم کے شیعہ سنی فسادات میں گرا ہوا خون صرف مسلکی خون نہیں ہے بلکہ یہ جانبین بہا ہوا پشتون خون ہے جو ہزارہا سالوں تک بھی خشک ہونے کا نام نہیں لےگا۔کرم کے شیعہ سنی فسادات کے پس پشت اقتصادی مفادات کار فرما ہیں جس میں جائدادوں کی سرکاری تقسیم اور حد بندیاں نہیں ہوئی ہیں اور متنازعہ شاملاتی جائدادیں اس سے الگ اور اسکے ساتھ جڑا ہوا دوسرا سنگین مسلہ ہے۔ کرم کی سنگینی کو شیعہ ، سنی دیہاتوں کے مشترکہ سرحدات مزید بڑھاتی ہیں جہاں ہر روز اور ہر وقت کسی نہ کسی دیہات کے سرحد پر تناو اور جنگ کی صورتحال رہتی ہے۔ افغانستان کے ساتھ سرحد تیل پر جلتی کا کام کرتی ہے جہاں سے فریقین کی مختلف صورتوں میں معاونت کی جاتی ہے۔ افغانستان کے طویل جنگ اور شورش کے نتیجے میں کرم مہلک ہتھیاروں سے بھرا ہوا ہے جسکے چلانے کے لیئے جانبین تربیت یافتہ لوگ بھی موجود ہیں۔ افغانستان میں مذہبی پشتون حکومتوں کے نتیجے میں جو سنی تھے اور ہیں، کرم کے علاقے پر مذہبی جنونیت اور فرقہ پرستی کے چھاپ کو گہرا کرتے چلے گئے ہیں ۔ دوسری جانب ایران کا اثر و رسوخ بھی حد سے زیادہ ہے جو اہل تشیع کو سنیوں کے برابر لاکر کھڑا کر دیتی ہے۔ اگر حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو اس سچ سے منہ نہیں موڑا جاسکتا ہے کہ افغانستان اور ایران کی مداخلت کرم میں روز روشن کی طرح عیاں ہے جسکی جرڑیں بلوچستان تک پھیلی ہوئی ہیں۔ جائدادوں کے عوامی مفادات کے ٹھکراو کے علاوہ جانبین مذہبی راہنماوں کے گہرے مفادات جو سنی شیعہ فسادات میں خوب ترقی پا رہے ہیں، کبھی بھی کرم میں امن کے قیام کو برداشت نہیں کرینگے۔ اس طویل لڑائی میں جسکی شروعات 1930 کے عشرے کے ابتدائی اور درمیانی مدت میں ہوئی تھی، اب اس میں سیاسی قوتیں، شخصیتں اور بحالی امن کے نام پر بننے والی تنظیمیں بھی اپنی دوکانداری خوب چمکا رہے ہیں جنکے مفاد میں شورش اور جنکی روزی روٹی کو چھینے والا امن ہے لہٰذا امن کا قیام کسی کے حق میں نہیں ہے اور کوئی بھی اسے قائم کرنے نہیں دے گا۔ اس تمام قبیح عمل میں جو اصل اور نمائندہ قوت پس منظر میں چلی گئی ہے اور جن کی اب رتی برابر بھی اہمیت نہیں رہی ہے وہ جانبین قومی عمائدین، قومی راہنما اور ملک تھے۔ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیئے عالمی قوتیں اپنے مقامی گماشتوں کے ذریعے وطن عزیز کو کئی اطراف سے گھیرنا چاہتی ہے۔ طالبان اور دیگر دہشت گرد قوتوں کے ساتھ ساتھ کرم میں شیعہ سنی فسادات کو بھڑکاتے رہنے کی وجہ سے افواج پاکستان اور سیکیورٹی اداروں کو افغانستان کے ساتھ مغربی سرحد پر زیادہ سے زیادہ مصروف رکھنا چاہتی ہے۔ کرم کے فسادات کو شیعہ سنی فسادات کا رنگ دیتے ہوئے گلگت سے کراچی تک فوج اور سیکیورٹی اداروں کے لیئے ایک اور محاذ کھولنا چاہتی ہے۔ بلوچستان کے محاذ کو بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد کرتے ہوئے پاک فوج اور منسلک سیکیورٹی اداروں کی قوت کو مزید منقسم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بلوچستان کے ہزارہ برادری پر سنی انتہا پسندوں کےحملوں کو باقاعدہ بناتےہوئےجہاں پاکستان کےلیئے قومی اوربین الاقوامی سطح پرمزید مشکلات پیدا کیئے جائینگے وہاں ایران اورافغانستان کے مزید مداخلت کے اور ٹھوس مواقع بھی فراہم کیئے جائینگے۔ ہندوستان کے ساتھ ہماری طویل مشرقی سرحد غیر محفوظ ہوتی چلی جائیگی اور ہندوستان کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں من مانیاں کرنے کے آزادانہ مواقع میسر ہو جائینگے۔ اس نازک ترین صورتحال میں شمالی علاقہ جات میں پاکستان کے مفادات کے تحفظ میں ہم سے بوجوہ کوتاہیاں ہوسکتی ہیں جسکا حمیازہ بھگتنا شائد اتنا آسان نہ ہو۔ پاکستان تحریک انصاف کی انتشاری سیاست، پشتون، بلوچ قوم پرستی اور پشتونوں کے افغانستان کے ساتھ اتفاق و اتحاد اور سیاسی سمجھوتہ کرنے کے نام پر بعض قبائلی پشتونوں کا بڑھنے اور پڑنے والا دباو عسکری قیادت کے لیئے ایک اضافی درد سر ثابت ہوسکتا ہے۔ حالات کی سنگینی کا تقاضا ہے کہ سیاسی انتشار سے سختی سے نمٹا جائے جبکہ کرم میں مزید وقت ضائع کیئے بغیر منظم اور موثر فوجی آپریشن شروع کیا جائے۔ روائتی مذہبی سوداگروں، سیاسی تاجروں اور امن کے نام پر دوکانداری چمکانے والوں کو فوجی آپریشن کے بعد بحالی امن کی عمل سے دور رکھا جائے۔ روائتی قومی عمائدین، قومی راہنماوں اور ملکان کو جنہیں مفاد پرستوں نے باہر نکل کر رکھا ہوا ہے کو امن کے عمل میں شامل کیا جائے۔ اسکے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو امن کے عمل میں برابر حصہ دار بنایا جائے ۔ قومی عمائدین کو اعتماد میں لیتے ہوئے فوج جائدادوں کی حد بندی کرے اور شیعہ سنی علاقوں کے درمیان واقع شاملاتی جائدادوں کو مروجہ ملکی قوانین کے مطابق حکومتی تحویل میں لیا جائے اور اسے افواج پاکستان، پولیس اور دیگر تمام سیکیورٹی اداروں کے تصرف میں دیا جائے تاکہ دونوں فرقوں کے درمیان ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ایک بفر زون قائم ہوجائے جو مستقل امن کی ضمانت ہوگی۔ قیام امن کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومت کو مل کر کرم میں تعلیم ، صحت، کمیونیکیشن ، زراعت اور روزگار کے مقامی ذرائع پیدا کرنے پر توجہ دینی چاہیئے۔ ہنگامی بنیادوں پر کرم میں تعینات سول بیوروکریسی اور اداروں کو تابع اور متین بنانا چاہیئے تاکہ وہ عوامی خدمت کے ساتھ ساتھ ریاست کو بھی جوابدہ ہو۔ آپریشن کے دوران ، قیام امن اور بعد از امن کے تمام فریقین کے ساتھ مکمل انصاف کا معاملہ کیا جائے اور اچھے اور برے ، گڈ اور بیڈ کے چکر سے نکل کر ہر دہشت گرد کو انجام تک پہنچایا جائے اور ہر محب وطن کو نوازا جائے۔
تین اطراف سے تین یلغاریں اور تین تلواریں جو پاکستان کے خلاف بےنیام ہوئی ہیں ان کے وار اور ضرب کا ہدف ایک ہی تلوار ہے جو پاکستان کا شمشیر، افواج پاکستان ہے۔ کرم میں برپا کیئے گئے فسادات دراصل وہ آگ ہے جسے پاکستان میں پھیلانے کی مذموم کوششیں کرتے ہوئے وطن عزیر کو بھسم اور خاکستر کرنے کی سعی ناتمام کی جائیگی۔ لیکن ہم خبردار بھی ہیں اور ہوشیار بھی ہیں۔ ہماری شمشیر، ہماری پاک فوج وہ فولادی وار ہے جو دشمن کے ہر خواہش، ہر خواب اور ہر منصوبے کو نیست و نابود کرے گی۔
واپس کریں