دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جھوٹ کے وکیل
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
قانون کے علمبردار جب قانون سے بالاتر ہونے کی واویلا کرتے ہیں تو شرفاء کے پاس سر پیٹنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں رہتا۔ دنیا کے ہر مذہب ، ملک، قانون اور سماج میں جھوٹ کو برا سمجھا جاتا ہے جبکہ سچ سب سے بڑا قدر تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارے دین اسلام ، مشرقی روایات ، قانون اور سماجی اقدار میں بھی جھوٹ کو گناہ اور سچ کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ کسی بھی ملک کی مقننہ قانون بناتی ہے اور مختلف ریاستی ادارے اس کا نفاذ کرتے ہیں جبکہ صحافی مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس کا پرچار کرتے ہوئے قومی زہن سازی کا اپنا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ کسی بھی ملک اور معاشرے میں بعض قوانین یا تو بدنیتی پر مبنی بنتے ہیں اور یا بشری کوتاہیوں کے باعث اس میں سقم رہ جاتے ہیں۔ صحافی ہی ہوتے ہیں کہ وہ اسکی نشاندہی کرتے ہوئے اسے درست کرنے میں مثبت دباو قائم کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ مگر اسے آپ کیا کہیں گے کہ جب صحافی سچ کے مخالفت اور جھوٹ کی طرفداری کے لیئے کمر باندھ لیں؟ سچ کے علمبردار جب جھوٹ کے وکیل بنیں تو اس سے بڑی ستم ظریفی بھلا اور کیا ہو سکتی ہے؟ یقینا یہ اخلاقی انحطاظ کی انتہائی گری ہوئی سطح ہی قرار دی جائی گی۔
سچ اور جھوٹ کے ایسے ہی شور و شر میں آج صحافتی تنظمیں اور راہنما لنگوٹیاں کھس چکے ہیں۔ زیر نظر تحریر میں ائیئے پاکستان میں الیکٹرانک جرائم کی روک تھام "پیکا"، " PECA " ترمیمی بل 2025 اور ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2024 کے خلاف صحافتی تنظیموں کے احتجاج ، میڈیا کے اخلاقی اصولوں، اور عالمی قوانین کا جائزہ لیتے ہیں اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کی سعی کرتے ہیں۔

یہ دونوں مذکورہ بل منگل کو سینیٹ سے منظور کیے گئے۔ وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے وزیر داخلہ محسن نقوی کی جانب سے بل پیش کیا۔ پیکا ایکٹ پہلے ہی قومی اسمبلی اور سینیٹ کی داخلہ کمیٹی سے منظور ہو چکا تھا، جبکہ ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2025 بھی اکثریتی ووٹ سے پاس کیا گیا۔ حکومت پاکستان کا یہ اقدام کسی بھی طرح غیرمنصفانہ نہیں بلکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے۔ اگر صحافی آزاد ہیں تو انہیں ذمہ دار بھی ہونا چاہیے، کیونکہ آزادی جھوٹ پھیلانے کا لائسنس نہیں ہوتی۔ یہ دونوں بل دراصل جھوٹ پر پابندی اور سچ کی نشرو اشاعت میں معاونت کے قوانین ہیں۔ یہ بل رسمی صحافیوں اور سوشل میڈیا کے غیر رسمی خود ساختہ صحافیوں کو جھوٹ، نفرت، شر انگیزی، بغاوت، توہین، ملک دشمنی اور قلمی دہشت گردی سے سختی کے ساتھ روکنے اور سچ، حق، صداقت، حب الوطنی اور امن کے فروغ کے لیئے سب سے بڑی سہولت کاری ہے۔ یہ قوانین منفی سرگرمیوں کے قلع قمع کرنے کے لیئے مناسب سزائیں جس میں قید و بند اور جرمانے شامل ہیں کی مختلف شقوں میں درجہ بندی اور احاطہ کرتی ہیں۔ اس طرح کے قوانین کا نفاذ پاکستان میں کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ یورپ اور امریکہ میں توہین اور جھوٹ کو سخت ترین جرائم میں شمار کیا جاتا ہے۔ دنیا کے 67 ممالک میں، جن میں زیادہ تر یورپ اور شمالی امریکہ کے ممالک شامل ہیں، توہین اور جھوٹ پر مبنی الزام فوجداری جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔یورپی یونین کے 28 میں سے 25 ممالک میں ہتک عزت (defamation) ایک مجرمانہ فعل ہے، اور ان میں سے 21 ممالک میں مجرم کو قید کی سزا دی جا سکتی ہے، خاص طور پر اگر جھوٹے الزامات کسی عوامی شخصیت پر لگائے گئے ہوں۔
چین، قطر، سعودی عرب، گیمبیا، اور کئی دیگر ممالک میں جھوٹی خبریں پھیلانے اور حکومت یا عوامی شخصیات کی توہین پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔
کیا میڈیا کو آزادی کے نام پر پاکستان میں جھوٹ پھیلانے کی کھلی چھوٹ ہونی چاہیے؟
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہےبکہ یہ ترامیم کسی مشاورت یا بحث کے بغیر منظور کی گئیں۔ تاہم، یہ دعویٰ حقیقت کے برعکس ہے کیونکہ میڈیا رائٹس تنظیمیں وفاقی وزیر اطلاعات سے مسلسل رابطے میں تھیں، اور پارلیمنٹ میں ہونے والی کاروائی کی کوریج بھی صحافی کر رہے تھے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئی سوشل میڈیا ریگولیشن اینڈ پروٹیکشن اتھارٹی اور نئے قوانین حکام کو غیر واضح بنیادوں پر مواد ہٹانے یا بلاک کرنے کا اختیار دیتے ہیں، جو آزادیٔ اظہار رائے کے خلاف اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں سے متصادم ہوگا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ قانون میں واضح معیار دیا گیا ہے۔ یہاں پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا
میڈیا رائٹس تنظیموں نے کبھی ان صحافیوں کے خلاف ایکشن لیا ہے جنہوں نے گمراہ کن اور جھوٹی خبریں چلوائیں؟ کیا کسی میڈیا رائٹس تنظیم نے کبھی ان صحافیوں کے خلاف کاروائی کی جو بغیر ثبوت سیاستدانوں، ججوں اور فوجی افسران پر الزامات لگاتے رہے؟
کیا کبھی کسی صحافی کی رکنیت معطل کی گئی جو ریٹائرڈ فوجی افسران کے غیر اعلانیہ ترجمان بنے ہوئے تھے؟
کیا ان صحافیوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی جو چیف آف آرمی سٹاف، ان کے خاندان اور حساس اداروں کے افسران پر جھوٹے الزامات لگاتے رہے؟
کیا کسی میڈیا تنظیم نے ان نام نہاد صحافیوں پر سوال اٹھایا جو حکومت پر لوگوں کو قتل کرنے کا الزام لگاتے رہے مگر ثبوت میں ایک بھی نام یا پتہ فراہم نہ کر سکے؟ عمران خان کو جیل میں زہر دینے، سیاسی جماعتوں کے راہنماوں کے خلاف من گھڑت پراپیگنڈے کرنے اور ریاستی اداروں پر حملہ آور ہونے والے نام نہاد صحافیوں کے خلاف کیا کوئی کاروائی کی گئی؟ کیا انکی کوئی زبانی کلامی مذمت کی گئی؟
کیا میڈیا کی آزادی کا مطلب ہر جھوٹ کو پھیلانے کی آزادی ہے؟
پاکستان میں بڑے میڈیا ہاؤسز، وی لاگرز اور بلاگرز نے سینکڑوں جھوٹی خبریں پھیلائیں، مگر نہ PFUJ، نہ RIUJ، نہ کسی پریس کلب، اور نہ ہی کسی انسانی حقوق یا میڈیا تنظیم نے ان کے خلاف کوئی نوٹس لیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور میڈیا تنظیموں کو عالمی قوانین کا جائزہ لینا چاہیے۔ وہ یہ بھی دیکھیں کہ پاکستان میں ٹاک شوز، وی لاگز اور بلاگز میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ دوسرے ممالک میں قابل سزا جرم سمجھا جاتا ہے یا نہیں؟ اگر ہماری صحافت ذمہ دار ہوتی اور ہمارے صحافتی ادارے اور تنظیمیں خود اپنی وضع کردہ قوانین اور اخلاقیات پر عمل کرتے تو حکومت کو بعد از خرابی بسیار کے ان قوانین کا نفاذ کیوں کرنا پڑتا؟ گلے سے احتجاجی اور انقلابی نعرہ نکالنے سے قبل ایک لہظے کے لیئے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیئے۔
دریں اثنا پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (PFUJ) کے صدر افضل بٹ نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کی ہے کہ جب میڈیا رائٹس تنظیمیں پارلیمنٹ کے باہر پیکا (ترمیمی) بل 2025 اور ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2024 کے خلاف دھرنا دیں گی، تو وہ بھی اپنے ملکوں میں احتجاج کریں۔ ان کا کہنا تھا، "ہم (صحافی) پوری دنیا کو اپنی آواز میں شامل کریں گے۔"
میڈیا تنظیمیں PECA بل کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں لیکن خود میڈیا میں پھیلائی جانے والی جھوٹی خبروں اور بے بنیاد الزامات پر خاموش رہتی ہیں۔ کیا تمام مہذب ممالک کی طرح پاکستان میں میڈیا کو ضابطۂ اخلاق کا پابند نہیں بنانا چاہیئے؟ اور کیا ہتک عزت کے قوانین عالمی معیارات کے مطابق نہیں بنانے چاہیئے؟
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بیرونی ملک مقیم پاکستانیوں سے یہ اپیل کرنا جائز تھا؟ کیا پاکستان کو یوں عالمی سطح پر بدنام کرنا درست عمل ہے؟ کیا جھوٹ لکھنے اور بولنے سے منع کرنے اور ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار بننے سے روکا جانا جرم ہے؟ یا آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے؟ کیا ان تمام میڈیا تنظیموں اور ان سے وابستہ راہنماوں نے صحافیوں اور دیگر صحافتی کارکنان کے لیئے کوئی قابل ذکر کام کیا ہے؟ کیا صحافیوں کے معاشی حقوق کے لیئے آواز اٹھائی ہے؟ کیا حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر کسی جھوٹے صحافی کے خلاف کوئی کارروائی کی ہے؟ کیا صحافیانہ مسلمہ عالمی اخلاقی معیار اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر ان تنظیموں نے اپنے کسی بھی صحافی کے خلاف کوئی تادیبی کاروائی کی ہے؟ کیا کسی صحافی کی رکنیت معطل کرکے کوئی کم سے کم سزا دی ہے۔ کیا اس قانون میں کہیں بھی لکھا ہوا ہے کہ سچ لکھنے اور بولنے پر کوئی سزا دی جائی گی؟ اس قانون میں تو صرف جھوٹ لکھنے اور بولنے، کردار کشی کرنے، بغیر ثبوت کے کسی کی پگڑی اچھالنے، ملکی سلامتی کے خلاف من گھڑت کہانیاں لکھنے اور سنانے، اداروں اور اہم مناصب پر تعینات شخصیتوں کے بارے میں منفی مہم چلانے اور ملک دشمن عناصر کے ایجنڈے کی تکمیل میں صحافت جیسے مقدس پیشے کے بنیادی اصولوں کو پاوں تلے روندنے پر مقدمات قائم کرنے اور ملکی قوانین کے تحت شفاف عدالتی کاروائی اور سزا و جزا کی بات کی گئی ہے۔ تو کیا یہ غلط بات ہے؟ تو کیا یہ کوئی شیطانی قانون ہے؟ آخر معترض صحافیوں کی منشا کیا ہے؟ آخر وہ چاہتے کیا ہیں؟ صحافت کی آڑ میں جھوٹ کے پیامبر؟ یا سچائیوں کے امین؟ پاکستان مزید جھوٹ پر نہیں چل سکتا۔ سچ لکھیں، سچ کہیں، سچ کا بول بالا کریں۔ سچائی ہی سب سے بڑا سچ ہے۔
واپس کریں