خیبر پختونخوا کے محکمہ سیاحت میں لوٹ مار اور راز داری: لاپتہ کروڑوں کا معمہ
خالد خان۔ کالم نگار
خیبر پختونخوا کے سیاحت کے شعبے میں ایک ایسا اسکینڈل بے نقاب ہو رہا ہے جو کرپشن، راز داری اور مالی بدانتظامی کی بھیانک مثال ہے۔ ایک ایسا محکمہ جو سیاحت کو فروغ دینے کے لیے بنایا گیا تھا، وہی خود بدعنوانی اور مالیاتی بے قاعدگیوں کا گڑھ بن گیا، جہاں خفیہ بینک اکاؤنٹس رکھے گئے، رقوم کا کوئی حساب نہیں، اور حکام مکمل بے خبری کا دعویٰ کرتے رہے۔
یہ کہانی 2019 میں شروع ہوئی جب خیبر پختونخوا حکومت نے سیاحت کے شعبے کو منظم کرنے کے لیے محکمہ ثقافت اور سیاحت کے مختلف اداروں کو ضم کر کے خیبر پختونخوا کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی تشکیل دی۔ ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز (DTS) کو بھی تمام مالیاتی ریکارڈ اور اکاؤنٹس اتھارٹی کے حوالے کرنے کا حکم دیا گیا، لیکن اس محکمے نے مزاحمت کی۔
سالوں تک، DTS نے مبہم طریقے سے کام کیا، ٹریول ایجنسیوں سے دو سے چار لاکھ روپے تک بطور سیکیورٹی ڈیپازٹ وصول کیے، لیکن ان فنڈز کے اصل کھاتوں کو مکمل طور پر خفیہ رکھا۔ اس نے مسلم کمرشل بینک (MCB)، حبیب بینک لمیٹڈ (HBL) اور ایس ایم ای بینک میں تین خفیہ اکاؤنٹس بنا رکھے تھے، جن کی منظوری کے لیے صوبائی محکمہ خزانہ سے درکار NOC بھی حاصل نہیں کیا گیا تھا۔ البتہ بینک آف خیبر میں کھولا گیا ایک اکاؤنٹ محکمہ خزانہ کے منظور شدہ کھاتوں میں شامل تھا، لیکن اصل مسئلہ کہیں اور تھا۔
2021 میں، صوبائی اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر نے ایک ایسا انکشاف کیا جس نے سیاحتی اتھارٹی کو ہلا کر رکھ دیا۔ DTS کے تین خفیہ بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگا، جن میں 50 کروڑ سے زائد رقم موجود تھی، اور یہ مسلسل منافع بھی کما رہے تھے۔ لیکن ان فنڈز پر کن کا کنٹرول تھا؟ سود کی رقم کہاں جا رہی تھی؟ اور ان اکاؤنٹس کو اتھارٹی کے علم میں کیوں نہیں لایا گیا؟ یہ تمام سوالات ایک سنگین مالیاتی اسکینڈل کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔
جب اتھارٹی نے ان فنڈز کو اپنی تحویل میں لینے کی کوشش کی تو بینکوں نے تعاون سے انکار کر دیا۔ بینک آف خیبر نے حکومتی ہدایات پر عمل کیا، لیکن MCB اور HBL نے اکاؤنٹس کو فریز کرنے سے انکار کر دیا۔ دستخط کی تبدیلی کی متعدد درخواستیں بھی نظر انداز کر دی گئیں۔ اس دوران، جب ایس ایم ای بینک بند ہوا تو DTS نے خاموشی سے وہاں سے 33 کروڑ 40 لاکھ روپے نکال کر MCB میں منتقل کر دیے، جس سے مزید شکوک و شبہات نے جنم لیا۔
قانونی جنگ کا آغاز بھی ایک چالاک حکمت عملی کا حصہ تھا۔ DTS کے ملازمین نے عدالت میں درخواست دائر کر دی کہ انہیں سول سرونٹس کا درجہ دیا جائے تاکہ وہ احتساب سے بچ سکیں۔ یہی حکمت عملی پاک آسٹریلین انسٹی ٹیوٹ آف ہوٹل ٹریننگ کے ملازمین نے بھی اپنائی، جس کی وجہ سے مالیاتی ریکارڈ اتھارٹی کے دائرہ کار سے باہر ہی رہا۔
یہ بدانتظامی محض بے ضابطگی نہیں بلکہ ایک منظم مالیاتی چالاکی کا نتیجہ تھی۔ ڈائریکٹوریٹ آف ٹورسٹ سروسز، جو بنیادی طور پر ہوٹلوں، ٹریول ایجنسیوں، اور ٹور آپریٹرز کو ریگولیٹ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، ایک ایسی دلدل میں تبدیل ہو چکا تھا جہاں خفیہ ٹرانزیکشنز اور بینک اکاؤنٹس کا گورکھ دھندہ چل رہا تھا۔
جب DTS کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل، ربی سے سوال کیا گیا تو انہوں نے ان اکاؤنٹس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ٹریول ایجنٹس کے ڈیپازٹس سرکاری فنڈز نہیں، اس لیے ان پر حکومتی کنٹرول کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ 2007 میں اس فنڈ سے 7 کروڑ روپے نکال کر پشاور جی ٹی روڈ پر 8 کنال زمین دفتر کے لیے خریدی گئی تھی، جس کی قیمت اب کئی گنا بڑھ چکی ہے لیکن یہ زمین بھی اب تک متنازع ہے۔
دوسری طرف، کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل تاشفین حیدر نے ایک اور سنسنی خیز انکشاف کیا۔ ان کے مطابق، 50 کروڑ روپے تو محض ایک اندازہ ہے، اصل میں کئی اور خفیہ اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے چھپائے گئے ہیں، جن کا کوئی ریکارڈ نہیں۔ صورتحال کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے، اتھارٹی نے اب اکاؤنٹنٹ جنرل کو فرانزک آڈٹ کے لیے درخواست دے دی ہے، تاکہ تمام تفصیلات منظر عام پر آ سکیں۔
یہ معاملہ محض ایک سرکاری محکمے کی غفلت کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک گہری سازش اور طاقتور حلقوں کی ملی بھگت کا شاخسانہ ہے۔ خیبر پختونخوا کی سیاحتی صنعت، جو دنیا بھر سے سیاحوں کو راغب کرتی ہے، ایک ایسے بحران کا شکار ہے جہاں ترقی کے لیے مختص رقوم چند افراد کی جیبوں میں جا رہی ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت واقعی اپنے افسران کا احتساب کرے گی یا ہمیشہ کی طرح یہ اسکینڈل بھی فائلوں میں دب کر رہ جائے گا۔
واپس کریں