افواج پاکستان کے خلاف رچائی گئی سازشیں اور اصل حقائق
خالد خان۔ کالم نگار
کہنے کو تو ہم 14 اگست 1947 کو آزاد ہوئے تھے، مگر عملی طور پر ہم آج بھی غلام ہیں۔ جسے عام طور پر آزادی کہا جاتا ہے، درحقیقت وہ گورے اشرافیہ سے کالے حکمرانوں کو اقتدار کی منتقلی تھی۔ انتقالِ اقتدار کے ساتھ ہی وہ تمام قوانین، روایات، مراعات، حاکمیت، اقدار، اصول اور ضابطے بھی مقامی حکمرانوں کو منتقل ہو گئے جو انگریز سرکار کے دست و بازو تھے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی چونکہ افسر شاہی کے ذریعے غیر منقسم ہندوستان کے امورِ سلطنت چلا رہی تھی، اور سیاسی اشرافیہ، جو جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سماجی شخصیات، قلم فروش دانشوروں اور مذہبی تاجروں پر مشتمل تھی، انگریز سامراج کے درباری مصاحب تھے۔ یہ مخصوص طبقہ حریت، بغاوت، انقلاب، بیداری، سیاست اور قوم شناسی و ذہن سازی کی کوششوں کو کچلنے میں انگریز حکمرانوں کی مدد کر رہا تھا۔ رسمی طور پر مقامی اشرافیہ کا کوئی سیاسی کردار یا پارلیمانی اہمیت نہیں تھی۔ ان کی ذمہ داری قوم کو غیرسیاسی بنانا اور ہر باغی آواز کو دبانا تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں جب دنیا پر سامراج کا براہ راست قبضہ بوجوہ ممکن نہ رہا، تو انہوں نے حتی المقدور اپنی نمائندہ حکومتیں آزادی حاصل کرنے والے ممالک میں بنانے کی کامیاب اور ناکام کوششیں کیں۔ متحدہ ہندوستان کی تقسیم میں، اگرچہ انگریز بھارت میں اپنی راجدھانی قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا اور مجبورا بھارت کا اقتدار زمین زادوں کے حوالے کرنا پڑا، مگر نوزائیدہ پاکستان کے لیے اسے اپنی تربیت یافتہ سول بیوروکریسی اور مقتدر اشرافیہ دستیاب تھی، لہٰذا آزادی کے بجائے انتقالِ اقتدار کا مرحلہ بخوبی طے ہوا۔
حسنِ اتفاق اور اللہ کے کرم سے انتقال اقتدار کے وقت نوزائیدہ پاک فوج اس شراکت سے بچی رہی۔ پاک فوج کے آلودہ نہ ہونے کی وجہ آزادی، جہاد اور حریت کے ولولہ انگیز جذبات کے علاوہ افرادی قوت اور جنگی سازوسامان کی قلت تھی، اور انگریز سامراج کا اسے نظرانداز کرنا بھی ایک وجہ تھی، اگرچہ پاکستان کی عسکری قیادت ایک وقت تک انگریز کے ہاتھ میں رہی۔
روزِ اول سے ایک لکیر کھینچی گئی جس کے ایک طرف پاکستان کے رکھوالے اور دوسری جانب وطن عزیز کو لوٹنے والے ڈاکو تھے۔ سیاسی، سماجی، اقتصادی اور دانشور و مذہب فروش طبقات، جو قابض انگریز سرکار کے دست و بازو تھے، اسی طرح آزاد پاکستان میں بھی اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ ان لٹیروں کے سامنے اگر کوئی دیوار تھی تو وہ افواجِ پاکستان تھی، لہٰذا روزِ اول سے ہی پاک فوج کو نشانہ بنایا گیا اور ہر گند فوج کے سر ڈالنے کی مذموم کوشش کی گئی، جس میں اشرافیہ کو کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں۔
یہی اشرافیہ عوام کا استحصال کرتی رہی، چھوٹے صوبوں کے حقوق غصب کرتی رہی، اور کمال ہوشیاری کے ساتھ اس لوٹ مار کا ملبہ پاک فوج کے سر ڈالتی رہی۔ اس مقصد کے لیے دفاعی اخراجات کے غلط اور گمراہ کن اعدادوشمار کے ذریعے قوم کے ذہن میں فوج کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
ملک کو وقتاً فوقتاً سازشوں کے ذریعے ایسے گردابوں میں پھنسایا گیا کہ پاک فوج کو اپنی آئینی ذمہ داریاں اور دفاعِ وطن کے فرض کو نبھانے کے لیے مداخلت کرنی پڑی، اور یوں اقتدار میں شمولیت کے ’گناہ بے لذت‘ کی ملزم و مجرم ٹھہرتی رہی۔ وقت کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست کے تقاضے اور انداز بدلتے رہے، اور یوں عسکری حکمرانی کو طوالت ملتی رہی، جو وطن عزیز اور افواجِ پاکستان کے لیے کوئی نیک شگون نہیں تھا۔
عسکری قیادت نے ہمیشہ آئینی تقاضوں اور دفاعِ وطن کی خاطر مداخلت کی ہے، جس میں ذاتی غرض و حرص کبھی بھی کوئی نمایاں عنصر نہیں رہی۔ اس کا یہ مطلب بھی قطعاً نہیں کہ عسکری قیادت دودھ کی دھلی ہوئی تھی، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاک فوج کو کمال مہارت کے ساتھ حکمران اشرافیہ نے استعمال کیا۔ یہ تاثر اب زائل ہونا چاہیے کہ گویا پاک فوج نے سیاستدانوں اور سول بیوروکریسی کو استعمال کیا، بلکہ درحقیقت ان دونوں قوتوں نے باہم مل کر پاک فوج کا استحصال کیا۔
سیاسی اشرافیہ کے ساتھ مل کر سول افسر شاہی نے وہ کھیل رچایا جس کا مکمل فائدہ انہیں اور مکمل نقصان پاکستان اور پاک فوج کو ہوا۔ کرپشن، ظلم، ناانصافی، اقربا پروری، میرٹ کی پامالی اور لوٹ مار کے لیے سیاسی اشرافیہ اور افسر شاہی نے وہ میدان سجایا کہ اہلِ فکر و نظر انگشت بدنداں رہ گئے۔
ریاست کے مختلف ادارے ملکی قوانین کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں، اور جب ہر ادارہ اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کرتا ہے تو وہی ممالک ترقی کرتے ہیں۔ پاکستان کا قیام خالصتاً مذہبی بنیادوں پر ہوا تھا، جو درست تھا، مگر اسے بدنیتی کے ساتھ ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ اسلامی ریاست کا مطلب اسلامی معاشرت، اسلامی معیشت، اسلامی قوانین، اقدار، روایات اور اسلامی اخوت تھا، جس کے ذریعے ایک نوآزاد، کثیرالقومی، لسانی، ثقافتی اور جغرافیائی ملک کو محفوظ و متحد رکھا جا سکتا تھا۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی بے وقت رحلت اور دیگر اکابرین کی کمزوری کے سبب، بقول بابائے قوم، ان کی جیب میں پڑے ہوئے کھوٹے سکے مملکتِ خداداد کے مالک بن گئے۔ مذہبی طاقتیں، جن کا کام شرعی قوانین کے نفاذ کے لیے ریاست پر دباؤ ڈالنا تھا، ذاتی مفادات کے حصول میں پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی مملکت بنانے سے دور لے گئیں۔ رہی سہی کسر سول بیوروکریسی نے پوری کر دی۔
قوم میں تازہ تازہ جذبہ تھا، لہٰذا پہلے ڈیڑھ دو عشروں میں ملک اوپر اٹھتا چلا گیا، مگر ادارے نہیں بن سکے۔ سیاسی افراتفری شروع ہو گئی۔ مختلف ریاست مخالف سوچیں پروان چڑھنے لگیں۔ لوٹ مار اور کرپشن بڑھتی گئی، اور بالآخر وہ صورتحال پیدا ہو گئی کہ فوج کو مداخلت کرنی پڑی۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، مگر ایسا ہوا، اور یہ کوئی نیک شگون نہیں تھا۔
فوج کو بھی اقتدار کا چسکا پڑ گیا اور اس طلب کو آئینی ذمہ داری کا نام دیا گیا۔ یہ بدعت فوج کے انتہائی محدود اعلیٰ قیادت میں پیدا ہوئی، مگر افواج پاکستان بطور ادارہ اس سے اب تک محفوظ ہے۔ یہی وہ موقع تھا جب سیاستدانوں اور سول افسر شاہی نے اپنے مقاصد کے لیے عسکری کندھا استعمال کیا۔
یہ اب وقت کی ضرورت ہے کہ موجودہ نسل کو اعتماد میں لیا جائے اور ان کی صحیح ذہن سازی کی جائے۔ منتخب نمائندوں کو صرف قانون سازی تک محدود کیا جائے، ترقیاتی منصوبوں کے لیے مقامی حکومتوں کو خودمختار بنایا جائے، وسیع پیمانے پر قانون سازی اور اصلاحات کی جائیں، سول بیوروکریسی کی تشکیلِ نو کی جائے، اور افسر شاہی کو بجائے حاکم ہونے کے عوامی خادم بنایا جائے۔
الیکشن کمیشن کو بااختیار بنایا جائے، عدلیہ کو شفاف فیصلوں کے ذریعے عوامی اعتماد حاصل کرنا چاہیے، اور فوج کو کم از کم ابتدائی 30 سال کے لیے ایک رسمی آئینی کردار دیا جائے۔ خواندگی کی شرح اور سیاسی جماعتوں کے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے صدارتی نظام کی طرف جایا جائے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو، تو کم از کم سول سروس میں بنیادی اصلاحات کی جائیں۔
واپس کریں