دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
موہنجو دڑو : تہذیب کا شاہکار، حکومتی غفلت کا شکار
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
تاریخ کی تہوں میں دفن، قدیم شہر موہنجو دڑو آج بھی ایک ایسی تہذیب کے راز چھپائے ہوئے ہے جو پانچ ہزار سال قبل اپنے عروج پر تھی۔ 1922 میں آر ڈی بینرجی کی قیادت میں محکمہ آثار قدیمہ، برٹش انڈیا کی کھدائی کے دوران دریافت ہونے والے اس شہر نے وادی سندھ کی تہذیب کے اسرار کو بے نقاب کیا۔ یہ ایک ایسی سماج تھی جو اپنے دور سے کہیں آگے تھی—جہاں طاقت اور دولت کے بجائے سماجی ہم آہنگی اور معاشی برابری کی بنیاد پر معاشرہ تشکیل دیا گیا تھا، ایک معمہ جو آج بھی مؤرخین کے لیے حیرت کا باعث ہے۔
موہنجو دڑو ایک شاندار شہری منصوبہ بندی کا شاہکار تھا، جہاں پکی اینٹوں کے مکانات، ترتیب وار گلیاں، اور ایک جدید نکاسی آب کا نظام موجود تھا، جو آج کے کئی جدید شہروں سے زیادہ ترقی یافتہ معلوم ہوتا ہے۔ اس شہر میں ایک مرکزی بازار، غلہ ذخیرہ کرنے کے بڑے گودام، اور پانی کی ترسیل کا ایک پیچیدہ نظام قائم تھا۔ یہاں تک کہ ایک عظیم الشان عوامی حمام بھی موجود تھا، جس میں زیرِ زمین حرارت کا انتظام کیا گیا تھا—یہ اس دور میں ایک ناقابلِ یقین انجینئرنگ کا کارنامہ تھا۔ کھنڈرات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مشترکہ تعلیمی ادارہ بھی موجود تھا، جو اس معاشرے کے اجتماعی فلاح و بہبود پر زور دینے کی نشاندہی کرتا ہے۔
اگر ہم موہنجو دڑو کا موازنہ قدیم مصر، میسوپوٹامیہ اور روم سے کریں تو ایک نمایاں فرق واضح ہوتا ہے۔ جہاں دیگر قدیم تہذیبیں عظیم محلات، شاہی مقبروں، اور طاقت کی یادگاروں کی تعمیر پر توجہ دیتی تھیں، وہیں موہنجو دڑو میں ایسا کوئی نشان نہیں ملتا۔ اس کے برعکس، اس شہر کی تعمیراتی باقیات ایک مساوات پسند معاشرے کی عکاسی کرتی ہیں، جہاں بنیادی شہری سہولتیں ہر فرد کے لیے یکساں دستیاب تھیں۔ معروف ماہر آثار قدیمہ سر جان مارشل نے اپنی کتاب موہنجو دڑو اینڈ دی انڈس سولائزیشن (1931) میں لکھا:
"قدیم تہذیبوں کے برعکس، جہاں مندروں اور شاہی مقبروں پر بے پناہ دولت خرچ کی جاتی تھی، وادی سندھ کے لوگ عام شہریوں کے لیے آرام دہ اور عملی طرزِ زندگی کو ترجیح دیتے تھے۔"
موہنجو دڑو کی اہمیت صرف اس کے آثار تک محدود نہیں، بلکہ اس کی علمی اور صنعتی ترقی بھی قابلِ ذکر ہے۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں پہلی بار کپاس کو بطور کپڑا استعمال کیا گیا—ایک ایسا انقلابی قدم جسے مغرب نے ہزاروں سال بعد اختیار کیا۔ اس کے سماجی اصول، جدید شہری منصوبہ بندی، اور سائنسی ترقی اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ یہ ایک ایسا معاشرہ تھا جو ذاتی عظمت کے بجائے اجتماعی ترقی پر یقین رکھتا تھا۔
لیکن آج، یہ شاندار ورثہ بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ وہی تہذیب جس نے طبقاتی نظام کو چیلنج کیا اور شہری ترقی کی مثال قائم کی، آج خود بے حسی اور عدم توجہی کی شکار ہے۔ سخت موسمی حالات، کٹاؤ، اور انسانی غفلت کے سبب موہنجو دڑو کی باقیات تیزی سے مٹ رہی ہیں۔ ماہرینِ آثار قدیمہ اور عالمی محققین مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ انسانی تاریخ کے عظیم ترین خزانوں میں سے ایک ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتا ہے۔
یہ خدشہ نیا نہیں ہے۔ برطانوی راج کے دوران، کئی مورخین اور اسکالرز نے اس مقام کے تحفظ کے لیے حکومت سے اپیلیں کیں۔ یہاں تک کہ جواہر لعل نہرو نے اپنی کتاب ڈسکوری آف انڈیا (1944) میں 1931 اور 1936 میں موہنجو دڑو کے دورے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
"جب میں نے دوسری بار اس مقام کا دورہ کیا تو میں نے دیکھا کہ بارش اور ہواؤں نے ان کھنڈرات کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا ہے۔ وہ عمارتیں جو پانچ ہزار سال تک زمین کے نیچے محفوظ رہیں، اب زمین پر آ کر بکھر رہی تھیں۔ آثار قدیمہ کو محفوظ رکھنے کے اقدامات نہ ہونے کے برابر تھے۔"
پاکستان کے قیام کے بعد کئی دہائیاں گزر چکی ہیں، لیکن موہنجو دڑو کا مقدر آج بھی غیر یقینی ہے۔ اگرچہ اسے یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیا ہے، مگر اس کی حفاظت کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ ایک ایسا شہر جو جدیدیت، برابری اور ترقی کی علامت تھا، آج وقت اور بے حسی کے رحم و کرم پر ہے۔
اگر ہم نے جلد اقدام نہ کیا، تو موہنجو دڑو صرف ایک کھویا ہوا شہر نہیں ہوگا—یہ انسانی تہذیب کا ایک کھویا ہوا سبق بن جائے گا۔
واپس کریں