دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ٹرمپ کی سفارتکاری یا زیلنسکی کی بےبسی؟ وائٹ ہاؤس میں جنگ کے مستقبل کا فیصلہ
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
یہ 28 فروری 2025 کی ایک سفارتی ملاقات تھی، مگر وائٹ ہاؤس کے تاریخی کمروں میں جو کچھ ہوا، وہ محض رسمی تبادلۂ خیال نہیں تھا۔ یہ دو ایسے رہنماؤں کا آمنا سامنا تھا جو مختلف حقیقتوں کے اسیر تھے۔ یہ تاریخ کے بوجھ تلے دبی ایک گفتگو تھی، جس کے ہر لفظ میں جنگ کی دھمک، سیاسی جوڑ توڑ، اور عالمی طاقتوں کے نازک توازن کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ لیکن اس ملاقات کا سب سے چونکا دینے والا پہلو یہ تھا کہ یوکرینی صدر زیلنسکی نے بارہا بولنے کی کوشش کی، مگر ٹرمپ نے انہیں بولنے ہی نہ دیا۔ یہ کسی دو مساوی لیڈروں کا مکالمہ نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی مشقِ طاقت تھی جہاں ایک فریق اپنی بات زبردستی منوانا چاہتا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ، اپنی مخصوص پُراعتماد مسکراہٹ کے ساتھ، ایک تجربہ کار سوداگر کی مانند کرسی پر جھکے۔ وہ سودے بازی کی زبان میں بولتے تھے، جیسے جنگ محض ایک معاہدہ ہو، جس پر دستخط کر کے ختم کیا جا سکتا ہو۔ ان کے نزدیک سفارتکاری ایک تجارتی لین دین تھی، ایک ایسا ہنر جس میں درمیانی راستہ نکالا جا سکتا تھا۔ "آپ کا ملک جنگ نہیں جیت رہا،" ٹرمپ نے زیلنسکی کو سرد لہجے میں جتایا۔ "اگر ہم نہ ہوتے، تو یہ جنگ دو ہفتے میں ختم ہو جاتی۔" زیلنسکی نے بارہا جواب دینے کی کوشش کی، مگر ٹرمپ نے ان کی ہر مداخلت کو دبا دیا۔ یہ سفارتی مذاکرات نہیں تھے، بلکہ امریکہ کی طاقت کا یکطرفہ اظہار تھا۔ زیلنسکی، جو ایک جنگ زدہ ملک کے نمائندے کے طور پر وہاں موجود تھے، اپنی قوم کے لیے لڑنے آئے تھے۔ مگر اس ملاقات میں انہیں کمزور، بے بس اور مجبور دکھانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔
ٹرمپ کے لیے روس ایک دشمن نہیں، بلکہ ایک طاقت ہے جسے "سمجھوتے" سے قابو کیا جا سکتا ہے۔ وہ عالمی تنازعات کو سفارتی تعلقات کی عینک سے دیکھتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ ہر جھگڑا مذاکرات سے سلجھایا جا سکتا ہے۔ ان کے نزدیک یوکرین کی جنگ بھی شاید انہی پُرانے معاملات میں سے ایک ہے، جسے صحیح پیشکش کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔ "پیوٹن ایک معاہدہ کرنا چاہتا ہے،" ٹرمپ نے کہا، جیسے وہ کسی کارپوریٹ ڈیل کی بات کر رہے ہوں۔ مگر زیلنسکی کے لیے یہ جنگ کسی فلسفیانہ بحث سے زیادہ اہم تھی—یہ زندگی اور موت کا معاملہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر امریکی مدد ڈگمگائی تو یوکرین کا مستقبل لمحوں میں بدل سکتا ہے۔ انہیں معلوم تھا کہ ماسکو میں بیٹھا پیوٹن امریکی ہچکچاہٹ کو سفارتکاری نہیں، بلکہ کمزوری سمجھے گا۔
اس ملاقات میں ایک اور حیران کن انکشاف یہ تھا کہ ٹرمپ نے واضح طور پر کہہ دیا کہ "یوکرین کے لیے سکیورٹی ضمانت امریکا نہیں، یورپ دے گا۔" یہ جملہ اس نئی امریکی پالیسی کا اشارہ تھا جو یوکرین کو تنہا کر سکتی ہے۔ کیا یوکرین، جو مغربی اتحاد کی علامت بن چکا تھا، تنہائی کا شکار ہو جائے گا؟
جب ملاقات ختم ہوئی، تو نہ کوئی گرمجوشی تھی، نہ کوئی ایسا بیان جو اختلافات کی دراڑوں کو پاٹ سکے۔ وائٹ ہاؤس کے دروازے بند ہو گئے، مگر عالمی سیاست کے نئے سوال کھل گئے: کیا ٹرمپ کا رویہ پیوٹن کو مزید جری کرے گا؟ کیا یوکرین کی جنگ واقعی ایک "سودے بازی" کی میز پر طے ہو سکتی ہے؟ یا پھر یہ وہ لمحہ تھا جب یوکرین کو یہ اندازہ ہوگیا کہ وہ واقعی اکیلا ہے؟
جواب تحریری بیانات میں نہیں، بلکہ کیف کی سڑکوں میں، واشنگٹن کے ایوانوں میں، اور کریملن کے بند دروازوں کے پیچھے تلاش کیے جائیں گے۔ جنگ ختم نہیں ہوئی—نہ میدانِ جنگ میں، نہ ان دماغوں میں جو اس کے مستقبل کے فیصلے کر سکتے ہیں۔
واپس کریں