دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر: عوامل، نتائج اور ممکنہ حل
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے، جن کے جوابات ملکی سالمیت اور بقا کے لیے انتہائی ضروری ہو چکے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز (ICPS) کے مطابق، 2023 میں ملک بھر میں 517 دہشت گرد حملے ریکارڈ کیے گئے، جبکہ 2024 میں یہ تعداد 1099 تک جا پہنچی۔ یعنی صرف ایک سال میں حملوں میں 112 فیصد اضافہ ہوا۔ ان حملوں میں سیکیورٹی اہلکاروں، شہریوں اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، جس سے نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ ریاستی عملداری پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا۔
خیبر پختونخوا اور بلوچستان بدترین متاثرہ صوبے رہے، جہاں دہشت گردوں کی کارروائیاں زیادہ شدت سے دیکھنے میں آئیں۔ خیبر پختونخوا میں 2024 کے ابتدائی تین ماہ میں 350 سے زائد حملے ریکارڈ کیے گئے، جن میں سے 70 فیصد حملے سیکیورٹی فورسز پر کیے گئے۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز (PIPS) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، صرف 2023 میں خیبر پختونخوا میں دہشت گرد حملوں میں 174 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ بلوچستان میں 39 فیصد اضافے کے ساتھ عسکریت پسند گروہ مزید جارحانہ ہوتے نظر آئے۔
ان حملوں کی نوعیت اور شدت میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان (TTP) اور داعش خراسان (ISIS-K) جیسے گروہ نہ صرف خودکش حملوں اور بارودی سرنگوں کا استعمال کر رہے ہیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی اور منظم حکمت عملی کے ذریعے ریاستی ڈھانچے کو کمزور کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد (ISSI) کی تحقیق کے مطابق، 2024 کے دوران دہشت گردوں نے زیادہ تر فوجی قافلوں، پولیس سٹیشنز اور حساس اداروں پر حملے کیے، جن میں 60 فیصد سے زائد حملے خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع، بنوں، لکی مروت اور وزیرستان میں ہوئے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی شدت میں اضافے کی بڑی وجہ افغانستان میں طالبان کی واپسی بھی قرار دی جا رہی ہے۔ افغان طالبان کی حکومت کے بعد، کئی دہشت گرد گروہ دوبارہ فعال ہوئے اور انہوں نے پاکستانی سرزمین پر اپنے حملے تیز کر دیے۔ افغانستان سے متصل علاقوں میں حملوں میں 80 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرحدی کنٹرول میں شدید خامیاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ، خطے میں دیگر غیر ریاستی عناصر اور بیرونی مداخلت بھی پاکستان میں بدامنی بڑھانے کا ایک عنصر بن چکی ہے، جسے اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز (CRSS) کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق، صرف جنوری اور فروری میں 685 سیکیورٹی اہلکار دہشت گرد حملوں میں شہید ہوئے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 120 فیصد زیادہ ہے۔
بلوچستان میں بھی دہشت گردی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں، جہاں بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) اور دیگر عسکریت پسند گروہ زیادہ خطرناک انداز میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اپریل 2024 میں کوئٹہ کے قریب ہونے والے ایک حملے میں 12 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے، جبکہ اسی مہینے میں گوادر میں ہونے والے ایک خودکش دھماکے میں چینی انجینئرز سمیت پانچ افراد جان سے گئے۔ ان واقعات نے چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے لیے بھی سنگین خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ ان حملوں سے واضح ہوتا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں نہ صرف سیکیورٹی فورسز بلکہ اہم اقتصادی منصوبوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہیں، جو ملک کی ترقی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
پاکستانی حکومت اور عسکری ادارے ان حملوں کو روکنے میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں، اس پر تند و تیز بحث جاری ہے۔ نیشنل ایکشن پلان، جسے 2014 کے آرمی پبلک سکول حملے کے بعد تشکیل دیا گیا تھا، پر مؤثر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث دہشت گرد گروہوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملا۔ بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق، اگر حکومت اور ریاستی ادارے دہشت گردی کی وجوہات کا گہرائی سے تجزیہ کرنے کے بجائے صرف عارضی اقدامات پر اکتفا کریں گے، تو آنے والے سالوں میں صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر ریاست سیاسی استحکام کو یقینی بنائے، مقامی آبادی کو اعتماد میں لے، اور ایک جامع سیکیورٹی پالیسی ترتیب دے، تو دیرپا امن ممکن ہو سکتا ہے۔
حکومت پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف متعدد آپریشنز کیے، جن میں ضربِ عضب اور ردالفساد جیسے آپریشن شامل ہیں۔ تاہم، 2024 میں دہشت گردی میں بے تحاشہ اضافے نے ثابت کر دیا کہ ان آپریشنز کے باوجود دہشت گردی کی جڑیں مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکیں۔ ماہرین کے مطابق، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں پاکستان کے مختلف علاقوں میں اپنے سلیپر سیلز کو متحرک رکھے ہوئے ہیں اور سرحد پار سے مسلسل مدد حاصل کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ، دہشت گردوں کے خلاف عسکری کارروائیاں صرف وقتی حل ثابت ہو سکتی ہیں، جب تک کہ ان کے نظریاتی اور مالی وسائل کو ختم کرنے کے لیے جامع اقدامات نہ کیے جائیں۔
پاکستان کی اقتصادی صورتحال بھی دہشت گردی کے اضافے میں ایک کردار ادا کر رہی ہے۔ معاشی بدحالی، بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام نے عوام میں عدم اطمینان پیدا کر دیا ہے، جس کا فائدہ اٹھا کر دہشت گرد گروہ نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل کر رہے ہیں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا جیسے پسماندہ علاقوں میں دہشت گرد تنظیموں کو ہمدردیاں حاصل ہو رہی ہیں، کیونکہ وہاں ترقیاتی منصوبوں کی کمی اور حکومتی ناکامی کے باعث لوگ خود کو ریاست سے بیگانہ محسوس کرنے لگے ہیں۔ اس کا مؤثر حل یہ ہے کہ حکومت ایسے علاقوں میں تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کرے تاکہ عوام دہشت گردوں کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں۔
ریاستی اداروں کی کمزوری اور سیاسی عدم استحکام بھی دہشت گردی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ سیکیورٹی ماہرین کے مطابق، جب بھی ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے، دہشت گرد گروہوں کو کارروائیوں کا موقع مل جاتا ہے۔ 2024 میں پاکستان کی سیاسی قیادت شدید بحرانوں میں گھری رہی، جس کے باعث سیکیورٹی پالیسیوں پر توجہ کم ہوئی۔ تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن، سیاسی جوڑ توڑ اور مختلف جماعتوں کے درمیان کشیدگی نے دہشت گردی کے خلاف اقدامات کو پس منظر میں دھکیل دیا۔ اگر سیاسی قیادت باہمی اختلافات ختم کر کے قومی مفاد میں متفقہ حکمت عملی تیار کرے، تو ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ زیادہ مؤثر ہو سکتی ہے۔
بین الاقوامی برادری بھی پاکستان میں دہشت گردی کی بحالی پر تشویش کا اظہار کر رہی ہے۔ امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک نے کئی بار خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف مؤثر اقدامات نہ کیے، تو عالمی سطح پر اس کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) نے بھی پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف مزید سخت کارروائی کرے۔ اس کے علاوہ، عالمی برادری کے ساتھ بہتر سفارتی تعلقات قائم کرنا اور علاقائی طاقتوں کو اعتماد میں لینا بھی پاکستان کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔
مجموعی طور پر، پاکستان کو ایک پیچیدہ سیکیورٹی بحران کا سامنا ہے، جس سے نمٹنے کے لیے جامع اور طویل مدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اگر ریاستی ادارے صرف وقتی اقدامات پر اکتفا کرتے رہے اور مسائل کی جڑ تک نہ پہنچے، تو آنے والے سالوں میں دہشت گردی کا یہ بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ایک ہمہ جہتی حکمت عملی درکار ہے، جس میں سیکیورٹی، معیشت، سفارت کاری اور عوامی فلاح و بہبود کو یکجا کیا جائے۔
واپس کریں