خالد خان۔ کالم نگار
امریکہ، ایران دشمنی جہاں آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے، وہاں بہت سارے سوالات کے جوابات بھی واضح ہوتے چلے گئے ہیں۔ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ایران جنگ کے آغاز سے پہلے ہی شکست تسلیم کرچکا ہے۔ اسی تجزیئے کے اساس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو براہ راست بات چیت کی پیشکش کی ہے۔ صدر ٹرمپ نے دو بہ دو گفت و شنید کی اہمیت بارے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ براہ راست بات چیت کے ذریعے فریقین کو ایک دوسرے کا نقطہ نظر بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ایران نے بھی رضامندی کا اشارہ دیتے ہوئے اس بات کی گویا تصدیق کی کہ خطے کے بعض ممالک کے ذریعے تصفئے کی بات چیت چل رہی تھی۔ تاہم، ایران نے کمزور موقف اختیار کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کو یاد دہانی کرانے کی کوشش کی کہ ایران کا نیوکلیئر پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، جسکے حوالے سے امریکہ سے پہلے ہی معاہدہ طے پایا جاچکا ہے۔ تاہم، امریکہ اس مرحلے پر ایران سے مزید بہت کچھ چاہتا ہے۔ بلکہ اگر صاف اور سیدھی بات کی جائے تو ایران کی موجودہ حیثیت کو قطعا بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
صدر ٹرمپ کے اس سخت گیر موقف کے کئی ٹھوس زمینی حقائق ہیں۔ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے لئے ایران ایک مستقل خطرہ ہے جس سے جان چھڑانے کا وقت اب آچکا ہے۔ اسرائیل کے لئے بھی فوری خطرہ ایران ہی ہے جسے ہمیشہ کے لئے کچلنا اب مزید نہیں ٹالا جاسکتا۔ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب سے بڑھ کر کوئی بھی بااعتماد دوست اسرائیل کا نہیں ہے اور دونوں کے مفادات بھی مشترک ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور اسرائیل دونوں کے لئے واحد خطرہ ایران اور ایران کے زیر اثر بعض دیگر پڑوسی ممالک ہیں جو مسلکی بنیادوں پر ایران کے زیر اثر ہیں۔ دوسری جانب، سمندروں کی اجارہ داری میں امریکہ کے سامنے سب سے بڑی روکاوٹ ایران ہے۔ یوں عرب ممالک، اسرائیل اور امریکہ کا مشترک دشمن ایران ہی ہے جسے اب سبق سکھانے کا وقت ہوچکا ہے۔
رومن تہذیب کے مقابل فارس تہذیب ہزاروں سال کی تاریخ اور ثقافت رکھتی ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے علاوہ مضبوط قومی بنیاد پر بھی استوار ہے۔ کئی عشروں کی عالمی تنہائی کی بدولت ایران مضبوطی کے ساتھ اپنے پیروں پر کھڑا ہے، تاہم اب ایران کے اندر سے کئی دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ ایران مستقل اور مسلسل پراکسیز کے ذریعے خطے کے مختلف ممالک اور اسرائیل و امریکہ کے مفادات کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا۔ عرب سپرنگ سے شروعات کرکے اب امریکہ اس مقام تک پہنچ چکا ہے جہاں بزورِ بازو اسرائیل کے ذریعے نہ صرف فلسطین کی کہانی ختم کر رہا ہے بلکہ سعودی عرب اور اسکے طفیلی عرب ممالک کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پہلے مرحلے میں بجائے ایران پر براہ راست ہاتھ ڈالنے کے، ایران کے پراکسیز کو ختم کرنے کی کامیاب کوششیں آخری مراحل میں ہیں جسکے بعد ایران کے پاس ماسوائے امریکی اور اسرائیلی اطاعت کے بغیر کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
دوسری جانب ایران کے سر تسلیم خم کرنے کے بعد عرب بادشاہتیں خود کو محفوظ تصور کریں گی۔ ایران عراق جنگ کے بعد ایک مرتبہ پھر ایران انتہائی کمزور حالت میں ہے۔ لبنان اور غزہ میں اسرائیل کی کامیاب کارروائیوں کے نتیجے میں ایران کے اتحادی حزب اللہ اور حماس بھاری نقصان اٹھا چکے ہیں۔ یمن کے حوثیوں کی کمر بھی تابڑ توڑ امریکی فضائی حملوں کی وجہ سے ٹوٹ چکی ہے۔ بشار الاسد کے شام کے خاتمے کے بعد ایران کی تمام تر مزاحمت پہلے ہی ناکام ہوچکی تھی۔ گزشتہ سال 26 اکتوبر کو اسرائیلی فضائی حملے نے ایران کی میزائل سازی کی صلاحیتوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا تھا اور اس کے ایس-300 فضائی دفاعی نظام کو ناکارہ بنا دیا تھا۔ اس سے قبل، اسرائیل پر ایران کی جانب سے کیے گئے دو ڈرون اور میزائل حملے بڑی حد تک غیر مؤثر رہے تھے، جس سے ایران کی اُن دفاعی صلاحیتوں کی کمزوری عیاں ہو گئی تھی جن کا بڑا چرچا کیا گیا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے ذریعے ایران کے کمزور پوزیشن کو مزید کمزور کرتے ہوئے ایران کے جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی۔ دوسری جانب ایرانی پراکسیز کے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے ایران پر مزید دباو بڑھا دیا۔ ایران کسی بھی صورت براہ راست جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا اور امریکی شرائط کے آگے سر جھکانے کے علاوہ اب ایران کے پاس شائد ہی کوئی دوسرا محفوظ راستہ بچا ہو۔
دوسری جانب ایران سے گہری اندرونی سازشوں کی اطلاعات بھی آرہی ہیں جو بہت زیادہ تبدیلیوں کی نقیب گردانی جارہی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ایران میں تقریبا 70 ہزار یہودی آباد ہیں جنہوں نے ایرانی شیعہ کا بھیس بدلا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایران میں رہائش پذیر یہودیوں کی تعداد 8500 ہے، تاہم بعض دیگر ذرائع یہ تعداد لاکھوں میں بتا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہودیوں کی ایک قابل ذکر تعداد جو ایرانی شیعہ کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں، کلیدی اور حساس عہدوں پر تعینات ہیں۔ ایران کا کوئی راز، راز نہیں رہا ہے اور اسرائیل ایران کے ہر حساسیت کی مکمل جانکاری رکھتا ہے۔ جنگ و جدل کے بغیر ایران نے نہ صرف امریکی جھولی میں گرنا ہے بلکہ ایران کے اندر بہت بڑی ریاستی اور سیاسی تبدیلی کے امکانات بھی رد نہیں کیے جاسکتے۔
اس ساری صورتحال نے جہاں ایک طرف مسلم اُمہ کی سفارتی و فکری برہنگی کو آشکار کیا ہے، وہیں پاکستان اور افغانستان کی ان مذہبی جماعتوں اور جہادی قوتوں کو بھی ننگا کر دیا ہے، جو دہائیوں سے اسلام کا چورن بیچتے رہے، مگر علم، سائنس، ٹیکنالوجی اور جمہوریت کو کفر کا نشان قرار دے کر نسلوں کو جاہلیت میں دھکیلتے رہے۔
اللہ تعالیٰ کی تدابیر نرالی ہوتی ہیں—کبھی فرعون کے گھر موسیٰ پیدا ہوتا ہے، کبھی نمرود کی سلطنت میں ابراہیم۔ شاید اب بھی وقت آ گیا ہے کہ مسلمان یہ سمجھ سکیں کہ دین کی اصل روح کس طرف اشارہ کر رہی ہے۔ کیا اس بار بھی وہ اندھے بہرے بنے رہیں گے، یا تاریخ کا یہ فیصلہ کوئی نیا شعور لے کر آئے گا؟
واپس کریں