دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سرد جنگ کا گرم ماحول
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
سرد جنگ کے کھلاڑی مختصر وقفے کے بعد تازہ دم ہو کر ایک بار پھر سرد جنگ کے شعلے بھڑکانے کے لیے افغانستان اور خیبر پختونخوا میں جنگی ایندھن چن چن کر اکٹھا کر رہے ہیں۔ اس جنگ کے لپکتے مہیب سائے اب کے ایران سے ہوتے ہوئے بلوچستان تک چھاتے رہیں گے۔ آگ اور خون کے برپا ہونے والے اس وحشت میں بہت سارے پرانے نشانات مٹتے اور نئے نمودار ہوتے چلے جائیں گے۔ گزشتہ سرد جنگ روس کے خلاف لڑی جا رہی تھی، جبکہ چین خاموش تماشائی تھا۔ اب کے سرد جنگ میں مدمقابل چین ہوگا، جبکہ روس خاموش تماشائی کا کردار نبھائے گا۔ یورپ اور ان کے دیگر حمایتی ممالک گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہوں گے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یورپ کے مقابلے میں روس کو ترجیح دے چکے ہیں، بلکہ یوں کہیے کہ دوسری جنگ عظیم کی رفاقت سے بالآخر جان چھڑا لی ہے۔ ممکنہ طور پر لگتا یوں ہے کہ یورپ اور اتحادیوں کا جھکاؤ چین کی طرف ہوگا، کیونکہ روس سے انہیں توسیع پسندی، ثقافتی اور اقتصادی خودساختہ خطرات ہیں، جبکہ چین کے ساتھ ان کا محض صارفین کی بڑھوتری اور کمیابی کی مسابقت ہے۔ یورپ اور روس کی نفسیات تقریباً وہی ہیں جو ہندوستان اور پاکستان کی ہیں۔
امریکہ نے 20 سال میں افغانستان کے انفراسٹرکچر، اداروں اور سیکیورٹی طاقت کو مستحکم کرتے ہوئے بھاری سرمایہ کاری کی۔ طالبان سے چھینے گئے اقتدار کو بالآخر دوحہ، قطر معاہدے کے تحت طالبان کے حوالے کرتے ہوئے اس یقین اور غلط اندازے کے ساتھ نکل گیا کہ طالبان خطے میں امریکی مفادات کی نگہبانی کریں گے۔ امریکی مفادات چین کو گرم پانیوں تک رسائی سے روکنا تھا۔ طالبان نے بجائے چین کا راستہ روکنے کے، الٹا امریکی مفادات کے برخلاف چین کے ساتھ تعلقات کو وسعت دی۔ طالبان کے پلان اے کی ناکامی کے بعد امریکہ نے داعش کے پلان بی سے کام لینے کا فیصلہ کیا۔
سرد جنگ ایک بار پھر گرم جنگ میں تبدیل ہونے جا رہی ہے، اور گزشتہ کی طرح اس بار بھی جنگ کا میدان افغانستان ہوگا، اور اس کے تباہ کن اثرات پاکستان کے پشتون اور بلوچ خطے پر ہوں گے۔ مشرق وسطیٰ کے عرب خطے میں پھیلے ہوئے ہر نوع کے امریکی جہادی پیادے افغانستان میں جمع کیے جا رہے ہیں تاکہ ایک طرف پرامن عرب ممالک کو بے چون و چرا اسرائیلی سپرداری میں دیا جائے اور دوسری جانب افغانستان کے تندور کو گرم کرتے ہوئے چین کے لیے جہنم بنایا جائے۔ اس منصوبے پر عمل کرنے کا آغاز افغانستان اور پاکستان میں سنی دیوبندی علما اور مدارس کو نشانہ بنانے سے ہو چکا ہے۔ افغانستان اور پاکستان، دونوں ممالک میں خصوصی طور پر حقانی دارالعلوم اکوڑہ خٹک، جسے دیوبند ثانی بھی کہا جاتا ہے، کے علما اور مدارس کو ٹارگٹ کیا جائے گا تاکہ افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان، دونوں کی قوت کو کچل دیا جائے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے داعش کے لڑاکے تیار کیے جا چکے ہیں، جو سخت گیر مؤقف اور وحشیانہ تشدد سے خطے پر حکمرانی کی جدوجہد کریں گے۔
ایران اس نئی جنگ سے کافی حد تک متاثر ہو سکتا ہے، اور داعش کی ایران کی جانب پیش قدمی روکنے کے لیے ایران بھی افغانستان اور پاکستان کے جنگی میدان میں لنگوٹ کس کر کودے گا، بلکہ کرم، گلگت اور بلوچستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کی صورت میں موجود ہے۔ ہندوستان، پاکستان کو کمزور کرنے اور خراسان سے اٹھنے والے تخیلاتی غزوۂ ہند کے مجاہد دستوں کو افغانستان تک محدود رکھنے کے لیے ہندوانہ فطرت کے مطابق منافقانہ کردار ادا کرے گا، جو ہوا کے رخ کے ساتھ بدلتا رہے گا۔
چین، جو روایتی طور پر جنگ سے دور بھاگنے والا ملک ہے، یا تو افغانستان اور سی پیک کو ترک کرتے ہوئے وسطی ایشیا کے متبادل شاہراہوں پر چلتے ہوئے کنزیومر مارکیٹس تک رسائی کی کوشش کرے گا، یا جنگ میں پراکسیز کے ذریعے بھرپور شرکت کرے گا۔ اس وقت چین کے دو طرح کے مفادات افغانستان اور پاکستان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ چین کی بقا کے لیے اگرچہ عالمی تجارت انتہائی ضروری ہے، مگر دوسری جانب اس کی ملکی سالمیت کے لیے بھی داعش کو کاشغر سے دور رکھنا اہم ہے۔ ان دو حقیقتوں کی موجودگی میں چین اس جنگ سے خود کو دور نہیں رکھ سکے گا، اور اسی سبب خطے کی صورتحال ہر آنے والے دن کے ساتھ مزید خطرناک اور تشویشناک ہوتی جا رہی ہے۔
پاکستان میں افغانستان کے راستے دہشت گردی انتہائی بڑھ چکی ہے، جس سے بدگمانیاں بھی شدید ہو چکی ہیں۔ مختلف دہشت گرد گروہ طالبان کے اندرونی اختلافات اور دھڑے بندیوں، کمزور ریاستی گرفت، غیر نمائندہ حکومت اور بین الاقوامی سازشوں کے نتیجے میں پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیاں تیز کر چکے ہیں۔
اس نازک ترین صورتحال میں پاکستان مختلف اندرونی مسائل کا شکار ہے، جن میں سرفہرست سیاسی تقسیم اور عدم استحکام، کمزور اقتصادی صورتحال، قومی یکجہتی کا فقدان، مسلکی اور لسانی تفریق و انتشار، اور بری طرز حکمرانی ہے، جو تشویش میں بجا طور پر اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ پاکستان کی سالمیت اور بقا کو یقینی بنانے کے لیے واحد منظم قوت صرف افواجِ پاکستان ہے، جس کے خلاف بھی کئی سازشیں جاری ہیں۔ پاکستان کے قائم رہنے اور اسے بکھرنے سے بچانے کے لیے صرف پاک فوج اور ملکی خفیہ ادارے ہیں، جنہیں پاکستانی عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ مگر یہ اکلوتی قوت تب تک ناکافی ہے جب تک ملک میں سیاسی استحکام اور قومی اتفاقِ رائے فروغ نہیں پاتا، جس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر عملی کام کی ضرورت ہے۔
بین الاقوامی ایجنڈے اور طے شدہ منصوبے کے مطابق کسی بھی سیاسی اور جغرافیائی تبدیلی کے نتیجے میں پشتون خطے کو مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں دینا طے ہے، جس کے ٹھوس وجوہات بھی ہیں۔ پشتون ترقی پسند، قوم پرست، جمہوریت نواز اور لبرل قوتیں اپنا عالمی اعتماد کھو چکی ہیں، جبکہ مذہبی طبقات مختلف حوالوں سے عالمی قوتوں کو زیادہ سود مند نظر آ رہے ہیں۔ ایسے حالات تیزی سے پیدا کیے جا رہے ہیں کہ مذہبی انتہا پسند حلقے، یا باآلفاظِ دیگر طالبان، اپنے اسلامی اور جہادی منشور کو پشتون قوم پرستی کا تڑکا لگائیں گے اور قبولیتِ عام کی سند وصول کر لیں گے۔
سرد جنگ کو جہنم کے برابر پشتون خطے میں گرم رکھنے کے لیے یہ مجرب نسخہ ہے، جس کے راستے میں واحد رکاوٹ پاک فوج ہے۔ آنے والے دنوں میں افواجِ پاکستان کے خلاف سازشیں بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہیں، جن کے لیے انتہائی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
واپس کریں