خیبر پختونخوا میں خون کی ہولی: 2024 میں 3,575 افراد ذاتی دشمنیوں کے بھینٹ چڑھے
خالد خان۔ کالم نگار
سال 2024 میں خیبر پختونخوا میں 3,575 افراد قتل ہوئے، جن میں سب سے زیادہ قتل پشاور میں ہوئے، جہاں 563 افراد جان سے گئے۔ بنوں میں 266، مردان میں 232، صوابی میں 230، چارسدہ میں 209، لکی مروت میں 195، اور نوشہرہ میں 191 افراد کو قتل کیا گیا۔ دیگر اضلاع میں بھی سینکڑوں لوگ جھگڑوں، دشمنیوں اور معمولی تنازعات میں زندگی کی بازی ہار گئے۔ یہ اعداد و شمار کسی جنگی محاذ کے نہیں، نہ ہی کسی دہشت گردی کی کارروائی کا نتیجہ ہیں۔ یہ خون اس زمین کے اپنے باسیوں نے بہایا، وہ لوگ جو کبھی مہمان نوازی، غیرت اور شجاعت کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ آخر یہ زمین اتنی بے رحم کیوں ہوگئی؟ کیا ہم نے اپنی غیرت کو ضد، بہادری کو غصے اور جرأت کو انتقام میں بدل دیا ہے؟
یہ قتل محض غصے کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک گہرے سماجی زوال کی علامت ہیں۔ جائیداد کے جھگڑے، زمین کے تنازعات، معمولی تلخ کلامیاں، ذاتی دشمنیاں، اور انتقامی جذبات ہر روز کسی نہ کسی گھر کو ماتم میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ یہاں کسی کی انا کسی کی زندگی پر بھاری پڑتی ہے، اور کوئی لمحوں میں زندگی چھین کر فخر محسوس کرتا ہے۔ لیکن کیا یہ سب محض اتفاق ہے؟ نہیں۔ اس کے پیچھے ایک پورا نظام ہے جو بدعنوانی، کمزوری اور ناانصافی کی بنیاد پر کھڑا ہے۔
ہمارے عدالتی نظام میں انصاف کی رفتار سست اور فیصلے اکثر غیر منصفانہ ہوتے ہیں۔ مقدمات سالوں تک چلتے ہیں، ثبوت مٹ جاتے ہیں، گواہ خریدا یا ڈرا دیا جاتا ہے، اور جب فیصلہ آتا ہے تو اکثر وہ کمزور فریق کے خلاف ہوتا ہے۔ وکیلوں کے لیے مقدمات صرف کمائی کا ذریعہ ہیں، اور عدالتوں کے دروازے عام آدمی کے لیے بند ہو چکے ہیں۔ جب مظلوم کو انصاف نہ ملے، تو وہ خود انتقام لینے پر مجبور ہو جاتا ہے، اور یوں دشمنیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کبھی جرگہ نظام پشتون روایات کی پہچان تھا، جہاں دانشمند لوگ انصاف کرتے تھے، مگر اب یہ طاقتوروں کے ہاتھ میں ایک اور ہتھیار بن چکا ہے۔ فیصلے اصولوں کے بجائے دولت اور تعلقات کی بنیاد پر ہوتے ہیں، اور کمزور فریق اکثر انصاف سے محروم رہ جاتا ہے۔ جب انصاف بکتا ہے، تو لوگ خود اپنا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اور یہی قتل و غارت کو مزید بڑھاتا ہے۔
قتل کے بہت سے واقعات جائیداد کے جھگڑوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی تنازعات صرف اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ سرکاری ریکارڈ میں زمینوں کی ملکیت واضح نہیں۔ ریونیو کے دفاتر میں بدعنوانی عام ہے، اور رشوت کے بغیر کوئی درست ریکارڈ نہیں بن سکتا۔ نتیجتاً، ہر دوسرا فرد کسی زمین کا دعویدار بن جاتا ہے، اور پھر یہ جھگڑے نسلوں تک چلتے ہیں۔ پولیس عوام کے تحفظ کے لیے بنائی گئی تھی، مگر وہ خود ایک مسئلہ بن چکی ہے۔ زیادہ تر مقدمات میں پولیس کسی ایک فریق کا ساتھ دیتی ہے، اور یہ فیصلہ پیسے یا سفارش کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی عام آدمی انصاف چاہے، تو اسے یا تو رشوت دینی پڑتی ہے یا پھر بااثر افراد کے در پر جھکنا پڑتا ہے۔ جب قانون کا نفاذ کرنے والے خود انصاف بیچنے لگیں، تو معاشرے میں جرم کی شرح کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہے۔
یہاں قتل کا ایک اور بڑا سبب غربت اور بے روزگاری ہے۔ جب لوگ فاقوں پر مجبور ہوں، جب ان کے پاس آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہ ہو، جب ان کے بچوں کے لیے کوئی روزگار نہ ہو، تو وہ غصے اور تلخی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ ذرا سی بات پر بھڑک اٹھتے ہیں، اور قتل و غارت میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ معاشرے میں لالچ بڑھ چکا ہے، اور لوگ رشتوں سے زیادہ دولت کو اہمیت دیتے ہیں۔ جائیداد کی خاطر بھائی، بھائی کا دشمن بن جاتا ہے، اور تھوڑی سی زمین کے لیے لوگ اپنوں کا خون بہانے سے دریغ نہیں کرتے۔ پرانی دشمنیوں کو نسل در نسل بڑھاوا دیا جاتا ہے، اور یوں انتقام کا نہ رکنے والا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
ایک اور مسئلہ غیر قانونی اسلحے کی بھرمار ہے۔ بندوق یہاں عام آدمی کے دسترس میں ہوتی ہے، اور معمولی تلخ کلامی میں لوگ فوراً ہتھیار نکال لیتے ہیں۔ جب اسلحہ اتنا آسانی سے دستیاب ہو، تو جرم بھی آسان ہو جاتا ہے۔ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مسائل کو حل کرنے کے بجائے لڑائی کو ترجیح دیتے ہیں۔ دلیل اور مکالمہ کی جگہ گولی نے لے لی ہے۔ جب کسی کے پاس شعور نہ ہو، تو وہ ہر مسئلے کو طاقت سے حل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور یہی رویہ قتل و غارت کے رجحان کو مزید بڑھاتا ہے۔
سب سے بڑھ کر، قانون سے بے خوفی نے ان تمام مسائل کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ اگر وہ کسی کو قتل بھی کر دیں، تو یا تو وہ رشوت دے کر بچ جائیں گے، یا پھر طاقتور جرگے ان کے لیے راہ نکال دیں گے۔ جب مجرموں کو سزا نہ ملے، تو جرم بڑھتا ہے، اور یہی کچھ خیبر پختونخوا میں ہو رہا ہے۔
یہ مسئلہ صرف جذباتی تقریروں یا وقتی اقدامات سے حل نہیں ہوگا۔ ہمیں ایک منظم حکمت عملی کی ضرورت ہے، جہاں عدالتی نظام کو تیز اور منصفانہ بنایا جائے، جرگوں میں شفافیت لائی جائے، ریونیو کا ریکارڈ درست کیا جائے، پولیس کو کرپشن سے پاک کیا جائے، اور لوگوں کو تعلیم اور شعور دیا جائے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ ہمیں بطور معاشرہ اپنی ذہنیت بدلنی ہوگی۔ ہمیں اپنی انا، ضد، لالچ اور انتقام کے جذبے کو ختم کرنا ہوگا۔ کیونکہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا، تو یہ سرزمین جو کبھی بہادری اور محبت کی علامت تھی، ہمیشہ خون آلود رہی گی۔
واپس کریں