دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
انصاف برائے فروخت
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
میرے علم میں لایا گیا ہے کہ کورٹ سٹاف سائلین اور وکلاء سے رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں تباہ کن پریکٹس نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ سائلین سے رقم لینے والے عملے کے خلاف انکوائری کرکے برائی کو جڑ سے اکھاڑا جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے کورٹ رومز اور کوریڈورز کی ویڈیو مانیٹرنگ ہوتی ہے، رجسٹرار آفس دو ہفتے کی فوٹیج نکال کر دیکھ سکتا ہے کہ سٹاف مطالبہ کرکے رقم لے رہا ہے۔ اگر ایسے مطالبات کی رپورٹس درست ثابت ہوں تو ملوث سٹاف کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ کورٹ ملازمین کا کسی وکیل یا سائل سے رقم لینا رشوت ستانی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس طرح رقم لینا انصاف کی فراہمی کے بدلے میں رینٹ لینے کے مترادف ہے۔ اس پریکٹس کو کارروائی کرکے ختم نہیں کیا جاتا تو اسلام آباد ہائی کورٹ کا کلچر خراب ہوگا۔
یہ الفاظ ایک عام شہری کے نہیں بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج جسٹس بابر ستار کے ہیں، جنہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو اپنے خط کے ذریعے اس بدترین حقیقت کو بے نقاب کیا ہے جس کا سامنا ہر وہ شخص کرتا ہے جو انصاف کے لیے عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتا ہے۔ ان کے اس خط نے ایک بار پھر اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کر دی ہے کہ پاکستان کی عدلیہ میں کرپشن، نااہلی، تاخیری حربے اور عدالتی عملے کا غیر ذمہ دارانہ رویہ عام ہو چکا ہے۔ یہ مسئلہ صرف اسلام آباد ہائی کورٹ تک محدود نہیں بلکہ پورے ملک کی عدالتیں اس گندگی میں لت پت ہو چکی ہیں، جہاں انصاف ایک مہنگی، سست اور بسا اوقات ناممکن شے بن چکی ہے۔
پاکستان میں زیر التوا مقدمات کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور ماتحت عدالتوں میں لاکھوں کیسز ایسے ہیں جو کئی سالوں بلکہ کئی دہائیوں سے زیر التوا ہیں۔ بعض مقدمات میں درخواست گزار یا مدعا علیہ انتقال کر جاتے ہیں، مگر ان کے ورثاء کو بھی انصاف نہیں ملتا۔ یہ صورت حال نہ صرف عدلیہ کی ناکامی کو عیاں کرتی ہے بلکہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ یہاں کا نظام صرف طاقتوروں کے حق میں کام کر رہا ہے۔ عدالتوں میں ایک اور تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ وہاں بنیادی سہولیات بھی عام شہریوں کے لیے مہیا نہیں۔ عدالتوں کے اندر خور و نوش کی اشیاء مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں، جبکہ سرکاری باتھ رومز تک جانے کے لیے بھی پیسے ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اس سب کے باوجود سب سے بڑا مسئلہ تاریخ پر تاریخ کا ملنا ہے۔ ایک مقدمہ جو چند ہفتوں میں حل ہو سکتا ہے، وہ سالوں بلکہ دہائیوں تک لٹکتا رہتا ہے۔ عدالتی عملے کی عدم دلچسپی، ججز کی نااہلی، وکلاء کی غیر سنجیدگی اور پولیس کے غیر پیشہ ورانہ رویے نے اس پورے نظام کو ایک مذاق بنا دیا ہے، جہاں انصاف صرف طاقتوروں کے لیے ہے اور عام آدمی کے لیے تکلیف، انتظار اور اذیت۔
اگر پاکستان کے عدالتی نظام کا موازنہ مہذب ممالک کی عدلیہ سے کیا جائے تو یہ زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ مغربی ممالک میں عدالتی نظام کی بنیاد شفافیت، فوری انصاف اور عوامی خدمت پر رکھی گئی ہے۔ وہاں ججز کی قابلیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوتا، مقدمات تیزی سے نمٹائے جاتے ہیں، اور عدالتی عملہ کرپشن میں ملوث نہیں ہوتا۔ عدالت میں کسی بھی شخص کے ساتھ بدتمیزی یا رشوت ستانی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں قوانین پر سختی سے عمل ہوتا ہے، اور ہر شہری کو انصاف کے حصول میں یکساں مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ مقدمات کے فیصلے دنوں یا ہفتوں میں ہوتے ہیں، جبکہ پاکستان میں ایک عام مقدمہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔
اسلامی انصاف کا اصول بھی پاکستان کے عدالتی نظام کے برعکس ہے۔ اسلامی قوانین میں عدل و انصاف کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اور خلافت راشدہ میں عدالتی نظام فوری اور شفاف تھا۔ قاضیوں کے فیصلے کسی دباؤ یا تاخیر کے بغیر کیے جاتے تھے۔ وہاں کسی کے لیے خصوصی رعایت نہیں تھی، اور حکمران سے لے کر عام شہری تک سب کو یکساں قانون کے تابع رکھا جاتا تھا۔ رشوت، سفارش اور تاخیری حربے اسلامی عدلیہ میں ناقابل قبول تھے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگوں کو انصاف کی تلاش میں دربدر نہیں پھرنا پڑتا تھا، بلکہ انہیں فوری اور غیر جانبدارانہ فیصلے ملتے تھے۔ پاکستان جو بظاہر ایک اسلامی ملک ہے، اس کے عدالتی نظام میں اسلامی اصولوں کا دور دور تک شائبہ نہیں۔ یہاں قانون صرف کمزوروں کے لیے سخت ہے، جبکہ طاقتوروں کے لیے نرمی برتی جاتی ہے۔ سیاسی دباؤ، مالی اثرو رسوخ اور خاندانی پس منظر عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ عام آدمی انصاف کے لیے ترستا ہے جبکہ اشرافیہ کو فوری اور مرضی کے مطابق فیصلے مل جاتے ہیں۔
پاکستان میں عدالتی نظام کی اصلاح کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے عدالتی عملے اور ججز کی سخت نگرانی کی جائے، رشوت ستانی میں ملوث افراد کو فوری سزا دی جائے، اور کرپشن کے تمام دروازے بند کیے جائیں۔ ماتحت عدالتوں میں ججز کی قابلیت کو بہتر بنانے کے لیے سخت تربیت اور امتحانات کا نظام متعارف کرایا جائے۔ پولیس اور سرکاری گواہوں کی حاضری یقینی بنائی جائے، اور تاخیری حربوں کے خاتمے کے لیے ڈیجیٹل عدالتی نظام اپنایا جائے۔ کورٹ فیس کو کم کرکے عام آدمی کے لیے انصاف کو آسان بنایا جائے، جبکہ وکلاء کی فیسوں پر بھی ایک ضابطہ اخلاق مرتب کیا جائے تاکہ وہ غریب عوام کو لوٹنے کے بجائے سچائی کے ساتھ ان کی مدد کریں۔
عدالتوں میں بنیادی سہولیات کو بہتر بنانا بھی ایک اہم قدم ہوگا۔ سرکاری باتھ رومز کو مفت استعمال کے لیے فراہم کیا جائے، اور عدالت کے اندر خور و نوش کی اشیاء کو عام مارکیٹ کے نرخوں پر دستیاب بنایا جائے۔ سب سے بڑھ کر، تاریخ پر تاریخ دینے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ ہر مقدمے کے لیے ایک مخصوص مدت مقرر کی جائے، اور اس مدت کے اندر فیصلے سنانے کو یقینی بنایا جائے۔ جسٹس بابر ستار کا خط ایک آئینہ ہے جس میں ہمارے عدالتی نظام کی بدنما تصویر نظر آتی ہے۔ اس خط میں درج شکایات صرف اسلام آباد ہائی کورٹ تک محدود نہیں بلکہ ملک بھر کی عدالتوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس عدالتی نظام کو ٹھیک کیا جائے۔ انصاف صرف طاقتوروں کا حق نہیں بلکہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ جب تک عدلیہ کرپشن، سفارش، اور نااہلی سے پاک نہیں ہوگی، پاکستان میں حقیقی انصاف کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔
واپس کریں