دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عمران خان کا سب سے بڑا المیہ سیاست میں غیر سیاسی ہونا ہے
خالد خان۔ کالم نگار
خالد خان۔ کالم نگار
سیاست وہ واحد مضمون ہے جو بیک وقت آرٹ اور سائنس ہے۔ بدقسمتی سے عمران خان نے اسے بھی کھیل سمجھ لیا تھا اور اپنے زورِ بازو پر آخری بال تک لڑنے کا تہیہ کیے ہوئے تھا۔ اگر سیاست کھیل ہے تو خان صاحب سے بھی اس کھیل کے بڑے مہا کھلاڑی موجود ہیں۔ خان صاحب بال رگڑتے رہے اور اگلے وکٹیں اُکھاڑ کر نکل گئے۔ بلاشبہ خان صاحب بقول ان کے ایک گیند پر دو وکٹیں لیں گے اور وہ مسلسل ویسے ہی گیندیں بھی پھینک رہے ہیں مگر میدان خالی ہے۔ کیچ کرنے کے لیئے کوئی رہا نہیں ہے۔ گیارہ کے گیارہ کھلاڑی بلکہ بارہواں کھلاڑی بھی غائب ہے۔ بیچاری علیمہ خان بارہویں کھلاڑی کی جگہ پانی دیتے دیتے اور پسینہ پونچھتے پونچھتے تھک گئی ہے۔ آج بے سروسامانی کے عالم میں انہیں تن تنہا ایک فٹ پاتھ پر فقیرنی کی طرح بیٹھا ہوا دیکھا، تو بخدا بہت دکھ ہوا۔ اس دکھ سے بھی زیادہ جب عمران خان نے تمام سیاسی جماعتوں اور قائدین پر حملے کیے تھے۔ جب انہوں نے سب کو چور، ڈاکو اور لٹیرے ثابت کیا تھا۔ اس دکھ سے بھی زیادہ دُکھی ہوا تھا جب عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کی داڑھی اور محمود خان اچکزئی کی چادر کا مذاق اُڑایا تھا۔ سچ کہوں تو پختونخوا کے گیارہ سالہ تباہی اور بربادی کا اتنا دکھ نہیں ہوا تھا جتنا علیمہ خان کا ہوا۔ پشتون سماج کی روایات، اخلاق اور سماجی ڈھانچے کا مذاق اُڑایا گیا۔ سیاسی نظام کو منہدم کیا گیا۔ اکابرین کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ ادارے ختم کر دیے گئے۔ حجرہ و مسجد سے لوگوں کو منحرف کروایا گیا۔ سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نکالا گیا۔ پاکستان کے نوجوانوں کو بجائے نظام کے ریاست کے خلاف کر دیا گیا۔ آرمی چیف کو عوام کا باپ بنا دیا گیا اور پھر اسی باپ کو بچوں سے گالیاں دلوا کر اولادوں کو حرامی قرار دے دیا گیا۔ سیاسی نظام کے انہدام کے بعد جو خلا پیدا ہوا، اس خلا کو بھرنے کے لیے ایک مادر پدر آزاد نئے سیاسی ایلیٹ کلاس کو تخلیق کرتے ہوئے اس خلا کو گوبر اور بھوسے سے بھر دیا گیا۔ ان لوگوں نے عمران خان کی بھرپور مدد کی جو لوگ آج اس کا ہر نقش مٹانے کی ہر کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان یوں ہی راتوں رات مہاتما نہیں بنا تھا۔ ریاست کے اعلیٰ دماغوں نے بےشمار قومی دولت خرچ کرکے عمران خان میں ہوا بھری تھی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان کے پیچھے پورا پاکستان، خصوصاً نوجوان طبقہ کھڑا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ایلیٹ کلاس اور پنجاب کو سیاست میں متحرک کر چکا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے گھروں میں ہاؤس ہولڈ نام ہے۔ بلاشبہ عمران خان نے اپنے ساتھ ساتھ ریاست، سیاست اور ریاستی اداروں کو بھی ننگا کیا۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان نے نوجوانوں کو طاقتوروں کے سامنے سوال اُٹھانا، گالی بکنا اور گریبان پر ہاتھ ڈالنے کا حوصلہ دیا مگر اس سب کچھ کے باوجود بھی آج وہ تنہا ہے۔ خان صاحب کی تنہائی کی وجہ اُس کا غیر سیاسی، غیر سائنسی، غیر نظریاتی اور غیر تنظیمی ہونا ہے۔ اُس کی تنہائی اُس کا غرور و تکبر، نرگسیت، نامردم شناسی اور خود کو عقلِ کُل سمجھنا اور اپنے عشق میں مبتلا ہونا ہے۔ عمران خان نے کبھی بھی پارٹی تنظیموں پر توجہ نہیں دی، اُس نے طاقت کے مرکز کو صرف اپنی ذات میں مرتکز کیے رکھا۔ تنظیم سازی نہ جمہوری تھی اور نہ خود انتخابی، موزوں لوگوں کی ہوئی تھی۔ نظریاتی، سیاسی اور تنظیمی تربیت کارکنان و لیڈران کے سرے سے ہوئی ہی نہیں تھی۔ سٹیٹس کو کے خلاف انقلاب کے طوفانی نعروں میں سٹیٹس کو کے نمائندوں کو انتخابی ٹکٹ، وزارتیں اور پارلیمانی عہدے حوالے کیے۔ پارٹی اور ملک کو انقلابی بنائے بغیر، اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بغاوت کی۔ بغاوت ناکام ہو گئی اور خان صاحب بجائے انقلابی کے باغی قرار دیے گئے۔ انقلابی واپس مڑ کر آ سکتے ہیں مگر باغی۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔ دنیا بھر کے انسان "ہیرو ورشپ" کے نفسیاتی عارضے میں مبتلا رہتے ہیں۔ پاکستانی کوئی الگ مخلوق نہیں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو، باچا خان اور دیگر کئی راہنماؤں کو آج کی نسل کے نوجوانوں نے نہیں دیکھا تھا مگر آج بھی ان کے نام پر دار پر چڑھنے کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان کی تو کہانی ہی الگ ہے۔ وہ تو لیونگ لیجنڈ ہے۔ وہ تو کم از کم ایک صدی پاکستانیوں کے دل و دماغ میں رہے گا۔ تو کیا اُس کے نام پر وہ لوگ اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں گے جو اُسے تنہا چھوڑ چکے ہیں؟ نہ تو امریکہ خان صاحب کو چھڑانے آئے گا اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کوئی سمجھوتہ کرے گی۔ رہ گئے سیاسی خانوادے تو وہ تو خان صاحب کے قل کے انتظار میں دبلے ہوتے جا رہے ہیں۔ اب بھی بچت کی صورت نکل سکتی ہے مگر خان صاحب کا المیہ یہ ہے کہ وہ غلطیوں سے سیکھنے کی بجائے غلطیوں کے گردان پر یقین رکھتے ہیں۔
واپس کریں