یہ کیسا اعزاز؟ خیبر پختونخوا کے حصے میں صرف شہادتیں !
خالد خان۔ کالم نگار
صدر مملکت آصف علی زرداری نے یوم آزادی کے موقع پر 104 پاکستانی اور غیر ملکی شخصیات کو مختلف اعزازات دینے کی منظوری دی۔ یہ اعزازات 23 مارچ 2025 کو ایک خصوصی تقریب میں عطا کیے جائیں گے۔ ملک کے مختلف شعبہ جات میں نمایاں خدمات انجام دینے والوں کو یہ اعزازات ملیں گے، جن میں سیاست، کھیل، ادب، سائنس، ٹیکنالوجی، سماجی خدمات، ٹیکس دہندگان، فنون اور بہادری کے شعبے شامل ہیں۔ تاہم، اگر خیبر پختونخوا پر نظر دوڑائی جائے تو وہاں سے ان اعزازات کے مستحق صرف وہی ٹھہرے جو شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئے ہیں یا دیشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے غازی کہلاتے ہیں۔ بہت سے غازی شدید زخمی ہونے کے بعد معذورں کی زندگی جی رہے ہیں۔
ایس پی محمد اعجاز خان شہید ، ڈی ایس پی سردار حسین شہید، سب انسپکٹر بخاری شاہ شہید ، ڈی ایس پی علامہ اقبال شہید ، ایل ایچ سی محمد فاروق شہید، ایڈیشنل ایس ایچ او عدنان آفریدی شہید ، کانسٹیبل جہانزیب شہید، حوالدار غازی شیراز الرحمٰن پشاور اور کانسٹیبل ارشاد علی شہید کو ہلال شجاعت سے نوازا جائے گا۔ اس کے علاوہ، ملک سبز علی شہید اور کیپٹن ریٹائرڈ حمزہ انجم کو ستارہ شجاعت دیا جائے گا، جبکہ ملک محمود جان شہید، سعید خان، سمیع اللہ خان شہید، صاحب خان اور ڈاکٹر شفیع محمد بزنجو کو تمغہ شجاعت عطا کیا جائے گا۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جہاں باقی ملک میں سائنس، ادب، کھیل، معیشت اور فنون لطیفہ کے ماہرین کو اعزازات سے نوازا گیا، وہیں خیبر پختونخوا کے عوام کو ایوارڈ کا مستحق ٹھہرانے کے لیے صرف شہادت ہی کافی سمجھی گئی۔ کیا یہاں کوئی سائنسدان، ادیب، شاعر، کھلاڑی یا محقق نہیں؟ کیا یہاں کوئی ایسا شخص نہیں جو اپنی زندگی میں ملک کے لیے کوئی کارنامہ انجام دے کر قومی اعزاز کا حقدار بنے؟
ملک بھر کے دیگر شعبہ جات میں نمایاں شخصیات کو اعزازات دیے گئے۔ خدمات عامہ میں ذوالفقار علی بھٹو شہید کو نشان پاکستان، کھیل کے شعبے میں ارشد ندیم کو ہلال امتیاز اور مراد سدپارہ کو ستارہ امتیاز دیا جائے گا۔ ادب میں ناصر کاظمی مرحوم کو نشان امتیاز (بعد از وفات)، جاوید جبار کو ہلال امتیاز، سلمان اعوان، ظفر وقار تاج اور منیزہ شمسی کو ستارہ امتیاز دیا گیا۔
سائنس اور ٹیکنالوجی میں عامر حفیظ ابراہیم کو ہلال امتیاز، ڈاکٹر غلام محمد علی اور سردار محمد آفتاب احمد خان وٹو کو ستارہ امتیاز، جبکہ ڈاکٹر سارا قریشی، ڈاکٹر رفیع الدین اور پروفیسر ڈاکٹر عثمان قمر کو تمغہ امتیاز دیا جائے گا۔
تعلیم میں سعدیہ رشید کو ہلال امتیاز، ضیاء الحق، ڈاکٹر سلیمان شہاب الدین اور سید اظہر حسین عابدی کو ستارہ امتیاز، جبکہ برکت شاہ، عبد الرشید کاکڑ اور عنیقہ بانو کو صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی دیا جا رہا ہے۔
شعبہ طب میں پروفیسر ڈاکٹر شہریار اور ڈاکٹر زریاب سیٹنا کو ہلال امتیاز، ڈاکٹر عاکف اللہ خان، ڈاکٹر سید عابد مہدی کاظمی اور اکرام اللہ خان کو تمغہ امتیاز سے نوازا جائے گا۔
فنون میں کالن ڈیوڈ کو ستارہ امتیاز، ارشد عزیز ملک، بختیار احمد اور بیرسٹر ظفر اللہ کو تمغہ امتیاز دیا جائے گا۔ فریحہ پرویز، حامد رانا، شیبا ارشد اور نوید احمد بھٹی کو صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا جائے گا۔
سماجی خدمات میں میاں عزیز احمد، ہنید لاکھانی، ثناء ہاشوانی اور سفیناز منیر کو ستارہ امتیاز، جبکہ خواجہ انور مجید اور حسین داؤد کو ہلال امتیاز دیا گیا۔
ٹیکس گزاروں میں سید عمران علی شاہ، ناظم الدین فیروز، امتیاز حسین، عدنان نیاز، زاہد احمد غریب اور سید اسد حسین زیدی کو ستارہ امتیاز عطا کیا جائے گا۔
بیرونی شخصیات میں پرنس عبد العزیز بن سلمان السعود کو ہلال پاکستان، فو چی ہنگ اور محمد سیف السویدی کو ہلال قائداعظم، ڈاکٹر ماجد بن عبد اللہ الكسبی اور انجینئر عبد اللہ السواہا کو ستارہ پاکستان، جبکہ حیدر قربانوف اور ڈاکٹر کرسٹین شموٹزر کو ستارہ قائداعظم دیا جائے گا۔
یہ تمام شخصیات ملک کے مختلف شعبہ جات میں اپنی زندگی میں نمایاں خدمات انجام دے کر ان اعزازات کی حقدار ٹھہریں۔ مگر خیبر پختونخوا کے لیے ایسا کوئی پیمانہ کیوں نہیں؟ یہاں سے جنہیں ایوارڈ ملے، وہ سب قربان ہو چکے ہیں، ماسوائے ایک دو ایوارڈز کے جو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیئے شہیدوں اور غازیوں کے علاوہ شخصیات کو دیئے گئے ہیں۔ دیگر صوبوں میں ایسے افراد کو بھی نوازا گیا جو زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ خیبر پختونخوا کے عوام کی خدمات کا اعتراف صرف شہادت کے بعد ہی کیوں کیا جاتا ہے؟ کیا یہاں جیتے جاگتے لوگ کسی اعزاز کے لائق نہیں؟ کیا یہاں سے صرف جنازے ہی اعزازات کے مستحق قرار پائیں گے؟
یہ تحفہ ہے اس سرزمین کے لیے جو سب سے زیادہ قربانیاں دیتی ہے۔ جہاں ہر روز کوئی نہ کوئی ماں اپنا بیٹا کھو دیتی ہے، کوئی بہن اپنے بھائی کی جدائی کا دکھ سہتی ہے، اور جہاں کے بہادر سپوت اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے بھی بس ایک تمغے کے مستحق ٹھہرتے ہیں، جو انہیں زندگی میں نہیں، بلکہ مرنے کے بعد دیا جاتا ہے۔
واپس کریں