ناتمام ہجرتیں: زمین زادوں کا دکھ، افسر شاہی کی فرعونیت
خالد خان۔ کالم نگار
پشتون من حیث القوم دو طبقات میں منقسم ہے: حاکم اور محکوم۔ حکمران طبقے میں سیاستدان، عسکری و سول افسر شاہی، عدلیہ، مذہبی قائدین، اور پیشہ ور گروہ جیسے ڈاکٹرز، انجینئرز، وکیل، اور دیگر شامل ہیں۔ اقلیتی آقا دستے میں جاگیردار، سرمایہ دار، تاجر، صحافی، میڈیا ہاؤسز، اور درباری دانشور بھی برابر کے شریک ہیں۔ باقی ماندہ تمام "عام عوام" حشرات الارض کے زمرے میں آتے ہیں، جن کے مقدر میں رینگنا اور پیروں تلے کچلنا لکھا ہے۔ حکمران زندگی گزارتے ہیں، اور حشرات الارض کو زندگی گزارتی ہے۔
ایسے ہی اس حکمران طبقے میں بیک وقت ایک ماموں اور بھانجا مراعات یافتہ قیمتی سرکاری چوکیوں پر براجمان تھے۔ ایک صاحب پولیٹیکل ایجنٹ مہمند، اور دوسرے باجوڑ کے کمانے والے پولیٹیکل ایجنٹ تھے۔ دونوں کا تعلق وزیرستان سے تھا۔ میں نے زندگی بھر کسی وزیرستانی خاتون کا چہرہ نہیں دیکھا تھا، حالانکہ وزیرستان کے طول و عرض میں میری دوستیاں بھی تھیں، متعدد رہائشی علاقوں میں وزیرستان کے باسی میرے پڑوسی بھی رہے، اور وزیرستان میں میری رشتہ داریاں بھی ہیں۔ بہرحال، وزیرستان آپریشنز کے دوران مہاجر کیمپوں میں میں نے وزیرستان کی خواتین کو بھی دیکھ لیا۔
ایک لائیو ٹیلی ویژن پروگرام میں کیمپوں کا ذکر کرتے ہوئے میں رو پڑا اور کہا کہ میری وزیرستان کی جن ماؤں، بہنوں، اور بیٹیوں کے چہرے ستاروں نے بھی نہیں دیکھے تھے، آج ان کے سروں سے دوپٹے چھینے گئے۔ یہ دونوں ماموں اور بھانجا اسی وزیرستان سے تھے، جس کے لیے میں رو رہا تھا اور تادمِ تحریر رو رہا ہوں۔
ایک امریکی نشریاتی ادارے کے لیے مجھے باجوڑ پر ایک دستاویزی فلم کا پراجیکٹ مل گیا۔ میں نے حکومت سے باقاعدہ اجازت لے کر اپنی مقامی دو رکنی پشتون ٹیم کے ساتھ باجوڑ کے لیے سفر شروع کیا۔ پروٹوکول کے مطابق، مہمند ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ صاحب کو رپورٹ کرنے کے لیے ان کے دفتر حاضر ہوا۔ ان کے رویے نے فرعونِ ثانی کے دیدار کی حسرت پوری کر دی، اور ہم جانبِ باجوڑ روانہ ہو گئے۔
باجوڑ پہنچ کر پولیٹیکل ایجنٹ صاحب کے دفتر میں حاضری دی اور اپنا تحریری شیڈول متعلقہ سیکشن میں جمع کروا کر خار بازار، جو باجوڑ کا دارالخلافہ ہے، میں کام کے لیے نکل گئے۔ خار بازار میں کاروبارِ زندگی ریکارڈ کرتے ہوئے ہمیں تقریباً 20 منٹ ہو چکے تھے کہ تین گاڑیوں میں سوار باوردی لیوی اہلکار ہمارے سروں پر آن کھڑے ہوئے۔ ایک باوردی صاحب، جو ٹیم انچارج تھے، نے کہا کہ پولیٹیکل صاحب نے چائے پر بلایا ہے۔ میں نے کہا، سورج ڈھلنے کی طرف بڑھ رہا ہے اور ہمارے پاس سورج غروب ہونے سے پہلے صرف آدھا گھنٹہ ہے، تھوڑا کام کرکے ہم آ جائیں گے۔ میرا جواب سنتے ہی ہمیں زبردستی اٹھا کر گاڑیوں میں ڈالا گیا اور چند منٹ میں پولیٹیکل ایجنٹ باجوڑ کے احاطے میں واقع سرکاری گیسٹ ہاؤس کے ایک کمرے میں نظر بند کر دیا گیا۔ میں کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔
تقریباً ایک گھنٹے بعد ڈپٹی پولیٹیکل ایجنٹ ہمارے کمرے میں آئے اور بڑے رعونت کے ساتھ متعدد بار ہماری کی گئی ریکارڈنگ چیک کی۔ ٹیم کو اسی طرح کمرے میں بند کرکے ڈپٹی صاحب مجھے پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس لے گئے۔ پولیٹیکل ایجنٹ نے بغور میرا جائزہ لینے کے بعد کہا:
"میں تمہیں ایک تاریک کمرے میں بھی بند کر سکتا تھا، لیکن اس لیے نہیں کیا کہ تمہاری زندگی میں پہلے ہی کوئی روشنی نہیں ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ تم ٹی وی پر جو پروگرام کرتے ہو، اس کا بیک گراؤنڈ گھپ اندھیرے میں ڈوبا ہوتا ہے جبکہ تمہارے چہرے پر سپاٹ لائٹ ہوتی ہے۔ لیکن ہم تمہیں کبھی بھی سپاٹ لائٹ میں آنے نہیں دیں گے۔ تمہیں پشتونوں، قبائلیوں، اور وزیرستان کا غم بہت کھائے جا رہا ہے؟ میں وزیرستان سے ہوں اور مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، پھر تم کون ہوتے ہو مفت کی غم خواری کرنے والے؟ تمہیں یہاں بلا کر ریاست کی طاقت دکھانی تھی، اور اب دفع ہو جاؤ۔"
اسی سکواڈ نے، جس نے ہمیں گرفتار کیا تھا، ہمیں مہمند ایجنسی کی سرحد پر مہمند سکواڈ کے حوالے کیا۔ مہمند سکواڈ نے ہمیں شبقدر پولیس کے سپرد کیا۔ شبقدر پولیس نے ہمیں ناگمان تک پہنچا کر پشاور روانہ کر دیا۔
رات کو میں گھر کی چھت پر چلا گیا اور تاروں بھرے آسمان کو تکتا رہا۔ یہ آسمان میرے، وزیرستان کے مہاجر کیمپ پر، اور باجوڑ کے وزیرستانی پولیٹیکل ایجنٹ کے سر پر یکساں قائم تھا، مگر ہم تینوں کے پاؤں تلے زمین مختلف تھی۔ ہمارے پاؤں تلے زمین کھسک کر ہمیں جہنم کے لپکتے ہوئے شعلوں پر کھڑا کر چکی تھی، جبکہ ان کی زمین پر فردوسی محلات تعمیر ہو رہے تھے۔ ہم زمین زادے ہو کر بھی خانہ بدوش تھے، اور وہ قومی خائن ہو کر بھی معتبر تھے۔
یکایک میں نے آسمان کی طرف خدا کو تلاش کرنے کے لیے سر اٹھایا تو عجیب منظر دیکھا۔ ستارے قہقہے لگاتے ہوئے رقصاں تھے، ننھے منے تارے بھی بے خودی میں جھوم رہے تھے۔ شاید قدرت کی ستم ظریفی پر ذہنی توازن کھو چکے تھے، یا پھر اوپر سے کسی پشتون جان کے نکلنے پر شکر گزاری بجا لا رہے تھے کہ کسی ایک پشتون جان کی تکلیف تو ختم ہوئی۔
واپس کریں