ملاکنڈ یونیورسٹی: جنسی ہراسانی کیس میں پروفیسر عبدالحسیب ملازمت سے برطرف
خالد خان۔ کالم نگار
ملاکنڈ یونیورسٹی کے پروفیسر پر طالبہ کو ہراساں کرنے کے الزامات ثابت ہو جانے کے بعد یونیورسٹی سینڈیکیٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے انہیں ملازمت سے برطرف کر دیا۔ یہ فیصلہ یونیورسٹی کی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کی تفصیلی تحقیقات اور سفارشات کے بعد سامنے آیا۔
کچھ عرصہ قبل اردو ڈپارٹمنٹ کی طالبہ نے پروفیسر عبدالحسیب پر اغوا اور جنسی ہراسانی کے الزامات عائد کرتے ہوئے مقدمہ درج کرایا تھا۔ یونیورسٹی کی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی نے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے گواہوں کے بیانات، ثبوتوں اور متعلقہ شواہد کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔ انکوائری کے دوران، مختلف افراد نے متاثرہ طالبہ کے موقف کی تائید کی، اور کئی ایسے نکات سامنے آئے جنہوں نے عبدالحسیب کے خلاف الزامات کو تقویت بخشی۔ کمیٹی کی حتمی رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا کہ عبدالحسیب کے خلاف لگائے گئے الزامات محض الزامات نہیں، بلکہ حقیقت پر مبنی ہیں، اور انہیں مزید درس و تدریس کی ذمہ داری دینا نہ صرف غیر اخلاقی ہوگا بلکہ ایک خطرناک مثال بھی قائم کرے گا۔
یونیورسٹی سینڈیکیٹ نے اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے عبدالحسیب کو برطرف کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کو بعض حلقوں نے انصاف کی فتح قرار دیا، جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ معاملے کی مزید تحقیقات اور عدالتی کارروائی کے بغیر یہ فیصلہ یکطرفہ ہوسکتا ہے۔
طلبہ تنظیموں نے اس فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام خواتین کے تحفظ کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک تعلیمی اداروں میں ہراسمنٹ کے خلاف سخت کارروائیاں نہیں ہوں گی، طالبات کا تعلیمی سفر مشکلات کا شکار رہے گا۔ کچھ حلقوں نے اس کیس کو ایک مثال بنا کر دیگر اداروں میں بھی ایسے معاملات پر فوری کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا، تاکہ مستقبل میں کوئی طالبہ ہراسمنٹ کا شکار ہو کر خاموش رہنے پر مجبور نہ ہو۔
دوسری طرف، کچھ اساتذہ اور تعلیمی ماہرین نے اس معاملے پر سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کے مطابق، ایسے مقدمات میں مکمل عدالتی کارروائی کے بغیر کسی فرد کی نوکری سے برطرفی ایک پریشان کن مثال قائم کر سکتی ہے۔ انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ کہیں اس فیصلے سے دیگر اساتذہ اور عملے میں خوف و ہراس نہ پیدا ہو جائے، اور وہ بلاوجہ جھوٹے الزامات کے خوف میں مبتلا ہو کر درس و تدریس میں دشواری محسوس نہ کرنے لگیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے ذریعے ایک واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں کسی بھی قسم کی ہراسمنٹ کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ان کے مطابق، خواتین کے لیے محفوظ تعلیمی ماحول فراہم کرنا اولین ترجیح ہے، اور اس مقصد کے لیے مستقبل میں مزید سخت پالیسیاں اپنائی جائیں گی۔
عبدالحسیب کی برطرفی کے بعد قانونی محاذ پر بھی کارروائی جاری ہے۔ عدالت میں اگر ان پر لگائے گئے الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو ان کے لیے مزید برے نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔ یہ کیس صرف ایک یونیورسٹی یا ایک طالبہ تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک بڑے مسئلے کی نشاندہی کر رہا ہے—وہ مسئلہ جو تعلیمی اداروں میں خواتین کے تحفظ، اساتذہ کے کردار، اور انصاف کے تقاضوں کے درمیان توازن قائم کرنے سے متعلق ہے۔
یہ معاملہ اب محض ایک برطرفی کا مسئلہ نہیں رہا، بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہمارے نظام، ہماری اقدار، اور ہمارے تعلیمی اداروں کی ساکھ کے بارے میں کئی سوالات اٹھا رہا ہے۔ کیا یہ واقعی انصاف کی جیت ہے، یا ایک ایسا معاملہ ہے جو مستقبل میں مزید پیچیدہ صورتحال کو جنم دے سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں مزید واضح ہو جائے گا، جب عدالتوں میں اس کیس کی مکمل تفصیلات سامنے آئیں گی۔
یادش بخیر کہ ملاکنڈ یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالحسیب کو شعبہ اردو کے چھٹی سمسٹر کی طالبہ، حرا گل، کی شکایت پر جنسی ہراسانی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ طالبہ کی باضابطہ شکایت پر پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے پروفیسر کو حراست میں لے لیا تھا، جبکہ عوامی دباؤ کے پیش نظر یونیورسٹی انتظامیہ نے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی ۔ یونیورسٹی کے ترجمان نے پروفیسر کے گرفتاری کے بعد بیان دیا تھا کہ اگر پروفیسر پر الزام ثابت ہو جاتا ہے تو انہیں ملازمت سے برطرف کر دیا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق، پروفیسر واٹس ایپ پر طالبات کو غیر اخلاقی پیغامات اور فحش ویڈیوز بھیجتے رہتے تھے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کے موبائل فون میں سینکڑوں نازیبا ویڈیوز اور تصاویر موجود تھیں۔
اس سکینڈل نے یونیورسٹی انتظامیہ پر بھی سنگین سوالات اٹھا دیئے تھے، کیونکہ اطلاعات کے مطابق حکام نے پہلے اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی تھی۔ عوامی سطح پر خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پر زور دیا گیا تھا کہ صرف ملزم کے خلاف سخت کارروائی نہ کی جائے بلکہ ان افراد کو بھی بے نقاب کیا جائے جنہوں نے اس گھناؤنے فعل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی تھی۔
یونیورسٹی آف ملاکنڈ کی انتظامیہ پر ماضی میں بھی غیر انسانی پالیسیوں کا الزام عائد کیا جاتا رہا تھا ۔ موسیٰ خان کا واقعہ اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے، جب ایک ہاسٹل طالبعلم کو محض رباب بجانے کی پاداش میں نصف شب ہاسٹل سے نکال دیا گیا۔ ذہنی دباؤ کے شکار موسیٰ خان اپنی موٹر سائیکل پر گھر جاتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گئے اور جاں بحق ہو گئے۔ یونیورسٹی نے اس واقعے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی، لیکن طلبہ نے احتجاج کر کے اس مسئلے کو خیبر پختونخوا اسمبلی تک پہنچا دیا تھا۔
پروفیسر عبدالحسیب کی گرفتاری کے بعد عوامی دباؤ کے تحت خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے تحقیقات کا حکم دے دیا تھا، اور ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس کی سربراہی ایڈیشنل سیکریٹری آصف رحیم اور ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (AIG) سونیا شمروز کر رہی تھیں ۔ کمیٹی کو 15 روز میں اپنی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی تاہم تادم تحریر مہینے گزرنے کے بعد بھی یہ رپورٹ جمع نہیں کرائی گئی ہے۔
پاکستان کے سائبر کرائم قوانین کے تحت کسی خاتون کو غیر اخلاقی پیغامات بھیجنا یا ان کی تصاویر کے ذریعے بلیک میل کرنا سنگین جرم ہے۔ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) 2016 کے تحت سیکشن 20، 21، 24 اور پاکستان پینل کوڈ (PPC) کی دفعہ 509 جیسے قوانین لاگو ہوتے ہیں، جو ہراسانی اور بلیک میلنگ کے مرتکب افراد کو 3 سے 7 سال قید اور لاکھوں روپے جرمانے کی سزائیں دے سکتے ہیں۔ مگر، حیران کن طور پر، پروفیسر عبدالحسیب کے خلاف درج ایف آئی آر میں ان سخت قوانین کو شامل نہیں کیا گیا تھا، جس سے انتظامیہ اور متعلقہ حکام کی نیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا۔
یونیورسٹی کے طلبہ کا کہنا تھا کہ جب تک سخت قانونی کارروائی نہیں کی جاتی، ایسے واقعات دہرائے جاتے رہیں گے۔ ماضی میں بھی 2020 میں ایک چینی طالبہ نے انگریزی ڈیپارٹمنٹ کے ایک سینئر پروفیسر پر ہراسانی کا الزام لگایا تھا، مگر اس کی شکایت کو دبا دیا گیا تھا۔
حسن اتفاق سے عین انہی دنوں جب یہ واقعہ رونما ہوا تھا، چیف آف آرمی سٹاف (COAS) جنرل عاصم منیر نے طالبات سے ملاقات کی تھی اور اپنے خطاب میں اسلامی اصولوں کی غلط تشریح کرنے والے عناصر کی مذمت کی تھی اور واضح کیا تھا کہ اسلام خواتین کے وقار کا تحفظ کرتا ہے۔ انہوں نے زور دیا تھا کہ خواتین کو ہراسانی سے پاک تعلیمی ماحول فراہم کرنا حکومت اور معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ ان کے اس بیان کو طالبات نے سراہا تھا، اور اس پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا تھا ۔
پروفیسر عبدالحسیب کے خلاف درج ایف آئی آر نمبر 185 میں دفعہ 365-B، 511، 506، 452، 354، اور 509 PPC شامل کی گئی تھیں ۔ شکایت کنندہ حرا گل نے پولیس کو ملزم کی طرف سے بھیجے گئے نازیبا پیغامات اور دھمکیوں کے سکرین شاٹس بھی فراہم کیے تھے۔
ملاکنڈ سکینڈل نے تعلیمی اداروں میں استحصال کی سنگین حقیقت بے نقاب کر دی تھی ۔ملاکنڈ یونیورسٹی میں پیش آنے والے اس سکینڈل نے ایک بار پھر پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ہراسگی کے بڑھتے ہوئے مسئلے کو بے نقاب کر دیا تھا ۔ پاکستان سٹڈیز کے پروفیسر عبدالحسیب کی گرفتاری، جو مبینہ طور پر طالبات کو بلیک میل اور ہراساں کر رہے تھے، علمی حلقوں میں شدید تشویش کا باعث بنی تھی ۔ اطلاعات کے مطابق، مذکورہ پروفیسر طالبات کو واٹس ایپ پر نازیبا پیغامات بھیجنے اور تعلیمی رعایت کے بدلے ان سے غیر اخلاقی فیورز کا مطالبہ کرتے تھے۔ متاثرہ طالبات نے انتظامیہ کو شکایات درج کروائیں، لیکن کارروائی کے بجائے معاملے کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ بالآخر چھٹے سمسٹر کی م طالبہ حرا گل نے ہمت دکھاتے ہوئے باضابطہ شکایت درج کروائی، جس میں انکشاف کیا گیا کہ مذکورہ پروفیسر نے انہیں گھر سے اغوا کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔
پروفیسر عبدالحسیب کی گرفتاری کے بعد مالاکنڈ لیویز نے ان کے موبائل فون سے تقریباً چار ہزار نازیبا ویڈیوز اور تصاویر برآمد کیں تھیں، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ کوئی انفرادی واقعہ نہیں بلکہ ایک طویل عرصے سے جاری استحصالی نظام کا حصہ تھا۔ ان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، جن میں دفعہ 365-بی (کسی عورت کو زبردستی نکاح یا غیر اخلاقی مقاصد کے لیے اغوا کرنا)، دفعہ 511 (جرم کرنے کی کوشش)، دفعہ 452 (گھریلو چاردیواری میں زبردستی داخل ہو کر نقصان پہنچانے یا دھمکانے کی کوشش)، دفعہ 354 (کسی عورت کی عزت کو نقصان پہنچانے کے لیے اس پر حملہ یا زبردستی) اور دفعہ 506 (مجرمانہ دھمکیاں) شامل تھیں ۔ ان دفعات کی موجودگی معاملے کی سنگینی کو واضح کرتی تھی، تاہم ذرائع کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ اور مقامی حکام نے اسے دبانے کی کوشش کی تھی، جیسا کہ ماضی میں بھی کئی مواقع پر ہوتا رہا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ پاکستانی جامعات میں ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہوں۔ مالاکنڈ سکینڈل کی نوعیت ماضی میں منظرِ عام پر آنے والے کئی واقعات سے ملتی جلتی تھی ۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونیورسٹی میں اس سے بھی زیادہ خوفناک انکشافات ہوئے تھے ،جہاں کچھ اساتذہ خفیہ طور پر طالبات کی ویڈیوز بنا کر انہیں بلیک میل کر رہے تھے۔ اس گھناونے عمل کو روکنے کے بجائے یونیورسٹی انتظامیہ نے معاملے کو دبانے کی کوشش کی تھی، جس سے متاثرہ طالبات مزید عدم تحفظ کا شکار ہو گئیں تھیں ۔ پنجاب یونیورسٹی اور قائداعظم یونیورسٹی میں بھی کئی بار اساتذہ پر طالبات کے استحصال کے الزامات لگ چکے ہیں، لیکن اکثر شکایات کو نظر انداز کر دیا گیا یا دبانے کی کوشش کی گئی۔ بلوچستان یونیورسٹی میں اس سے بھی ہولناک معاملہ سامنے آیا تھا، جہاں خفیہ کیمرے لگا کر ہاسٹلز اور کیمپس میں طالبات کی ویڈیوز بنائی جا رہی تھیں۔ ان ویڈیوز کو بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرنے کے شواہد ملے، لیکن خوف اور دباؤ کی وجہ سے بیشتر متاثرہ لڑکیوں نے خاموشی اختیار کر لی تھی ۔
خواتین کے لیے ہراسگی محض ایک تعلیمی مسئلہ نہیں بلکہ ایک ایسا نفسیاتی صدمہ ہے جو ان کی ذہنی صحت اور مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ متعدد متاثرہ لڑکیاں ذہنی دباؤ، پریشانی اور تعلیمی ناکامی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ کئی طالبات یونیورسٹیاں چھوڑنے یا اپنی تعلیم ترک کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ انتقامی کارروائی کے خوف کی وجہ سے بھی متاثرین شکایات درج کروانے سے کتراتی ہیں، کیونکہ انہیں بدنامی، پیشہ ورانہ رکاوٹوں، اور حتیٰ کہ حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایک تحقیقی ادارے کے 2021 کے مطالعے کے مطابق، پاکستان میں 70 فیصد سے زائد طالبات نے اپنی تعلیمی زندگی میں کسی نہ کسی شکل میں ہراسگی کا سامنا کیا، لیکن ان میں سے صرف چند ایک نے شکایت درج کروانے کی ہمت کی۔ اس کی بنیادی وجوہات میں معاشرتی دباؤ، متاثرین پر الزام تراشی، اور اداروں کی بے حسی شامل ہیں۔
پاکستان میں خواتین کو ہراسگی سے بچانے کے لیے قوانین تو موجود ہیں، لیکن ان کا نفاذ بے حد کمزور ہے۔ "تحفظِ خواتین از ہراسگی ایکٹ" تعلیمی اداروں پر بھی لاگو ہوتا ہے اور جامعات پر لازم ہے کہ وہ انسدادِ ہراسگی کمیٹیاں تشکیل دیں، لیکن زیادہ تر معاملات میں یہ کمیٹیاں محض کاغذی حد تک محدود رہتی ہیں۔ متاثرین اکثر شکایت کرتی ہیں کہ ان کی درخواستوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ "سائبر کرائم ایکٹ" بھی ڈیجیٹل ہراسگی کو جرم قرار دیتا ہے، لیکن ناقص عمل درآمد کی وجہ سے ملزمان اکثر بچ نکلتے ہیں۔ قانونی کارروائیاں طویل عرصے تک لٹکائی جاتی ہیں، ثبوتوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اور متاثرین پر دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ اپنی شکایات واپس لے لیں۔
سوشل میڈیا نے ان معاملات کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جو عام طور پر تعلیمی ادارے دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ طلبہ نے ٹوئٹر اور فیس بک جیسے پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے اپنی کہانیاں عوام کے سامنے رکھیں، جس سے بعض اوقات شدید عوامی ردِعمل پیدا ہوا اور حکام کو کارروائی پر مجبور ہونا پڑا۔ تاہم، اس کے نقصانات بھی ہیں۔ متاثرین کو اکثر آن لائن بدنامی اور سائبر حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ بعض تعلیمی ادارے ان طلبہ کے خلاف قانونی کارروائی کی دھمکیاں دیتے ہیں جو ہراسگی کے واقعات پر آواز اٹھاتے ہیں۔ کچھ طلبہ کو نامعلوم عناصر کی جانب سے دھمکیاں بھی موصول ہوئیں اور بعض کو یونیورسٹی سے نکالے جانے کی اطلاعات بھی ملیں۔
دیگر ممالک نے تعلیمی اداروں میں ہراسگی کے خلاف مؤثر اقدامات کیے ہیں۔ امریکہ میں "ٹائٹل نائن" قانون کے تحت تعلیمی ادارے جنسی ہراسگی کے کسی بھی کیس پر فوری کارروائی کے پابند ہیں، اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہیں تو ان پر قانونی کاروائی اور مالی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ برطانیہ میں ایک خودمختار ادارہ یونیورسٹیوں کے ہراسگی کے معاملات کی آزادانہ تحقیقات کرتا ہے تاکہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔ یورپی ممالک میں طلبہ اور اساتذہ کے لیے لازمی تربیتی کورس متعارف کرائے گئے ہیں، تاکہ آگاہی اور بچاؤ کے طریقے سکھائے جا سکیں۔ پاکستان میں، اس کے برعکس، کوئی مؤثر نگران نظام موجود نہیں، جس کی وجہ سے ادارے اپنی ساکھ کو ترجیح دیتے ہیں اور متاثرین کی شکایات کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔
مالاکنڈ سکینڈل اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ جامعات کو فوری طور پر شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کو یقینی بنانا چاہیے اور اساتذہ کے احتساب کے لیے سخت قانونی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ایسے آزاد تحقیقاتی ادارے قائم کیے جائیں جو تعلیمی اداروں کے ماتحت نہ ہوں تاکہ متاثرین کو انصاف مل سکے۔ انسدادِ ہراسگی کے قوانین کو سختی سے نافذ کرنا اور ان کی خلاف ورزی کرنے والے اداروں کے خلاف کارروائی کرنا ناگزیر ہے۔ طلبہ کے لیے آگاہی پروگرام متعارف کرانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے حقوق سے واقف ہو سکیں اور ایسے جرائم کے خلاف آواز بلند کر سکیں۔
اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو تعلیمی ادارے غیر محفوظ ہی رہیں گے اور ایسے سنگین واقعات تسلسل سے سامنے آتے رہیں گے۔
واپس کریں