بلوچ سرداروں کی غداریاں؛ بلوچ عوام کی خواریاں: داستانِ مکر و فریب
خالد خان۔ کالم نگار
متحدہ ہندوستان پر حکمرانی کے دوران انگریز سامراج نے جب برصغیر کے دیگر علاقوں کو اپنی نوآبادیاتی گرفت میں لیا، تو بلوچستان کو بھی زیرِ تسلط لانے کے لیے دو بڑی اینگلو افغان جنگیں لڑیں۔ یہ جنگیں ان کے لیے وہ مواقع ثابت ہوئیں جن کے ذریعے وہ نہ صرف افغانستان کے دروازوں تک جا پہنچے بلکہ بلوچستان کے سینے پر بھی اپنا قبضہ جما بیٹھے۔
1839 کی پہلی اینگلو افغان جنگ کے دوران، جب انگریز بلوچستان کو تر نوالہ سمجھ بیٹھے تھے، ایک جری بلوچ سردار خان محراب خان نے ان کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ 5 نومبر 1839 کو قلات کے مقام پر انگریز افواج کا مردانہ وار سامنا کرتے ہوئے، سردار خان محراب خان نے ان تمام مقامی بلوچ سرداروں کی غداری اور انگریزوں سے وفاداری کے باوجود وہ جرأت دکھائی جس نے سامراجی صفوں میں لرزہ طاری کر دیا۔ اگرچہ وہ شکست کھا گئے، مگر ان کی شہادت نے بلوچ تاریخ کو ایک ناقابلِ فراموش باب عطا کیا۔
جنرل ولشائر کی قیادت میں آنے والی انگریز فوج میں لیفٹیننٹ لیچ، میجر آؤٹرم، اور برگیڈیئر جنرل نیوٹن جیسے افسران بھی شامل تھے، جنہوں نے مقامی سرداروں کو زر و جواہر کے عوض خریدا، تاکہ علاقے پر آسانی سے قبضہ ممکن ہو۔ انگریز سرکار نے بعد ازاں ان غداروں کو انعام و اکرام، جاگیریں اور ماہانہ وظائف سے نوازا۔ سردار رئیسانی کو 400 روپے، سردار شاہوانی اور سردار بنگلزئی کو 300 روپے، جبکہ دیگر کئی سرداروں کو اسی طرح کی ’وفاداری کی قیمت‘ ادا کی گئی۔
1879 میں جب دوسری اینگلو افغان جنگ کا آغاز ہوا تو انگریز نے بلوچستان میں اپنا پنجہ مزید مضبوط کیا۔ جنرل فریڈرک رابرٹس کی قیادت میں پشین، لورالائی، ہرنائی، سبی اور ژوب جیسے اہم علاقے انگریز کے تسلط میں آ گئے۔ یہاں بھی وہی کہانی دہرائی گئی — بلوچ سرداروں نے حسبِ روایت سامراجی طاقت کے سامنے سجدہ ریز ہو کر اپنی قوم کو گروی رکھ دیا۔
نواب مری کو 818 روپے، نواب بگٹی کو 800 روپے، نواب جوگیزئی کو 400، سردار سنجرانی، ارباب کاسی، زگر مینگل، پانیزئی، ناصر، کھیتران، باروزئی، لونی اور موسیٰ کو مختلف مالیت کے وظائف مقرر کیے گئے — گویا بلوچ قوم کی خودمختاری چند روپوں میں نیلام کر دی گئی۔
قیامِ پاکستان کے بعد بھی یہی سلسلہ برقرار رہا۔ 1976 کے سرداری آرڈیننس کے بعد جو فہرستیں مرتب ہوئیں، ان میں انکشاف ہوا کہ والیانِ ریاست 4، نوابین و سردار 74، معتبرین 101، اراکینِ جرگہ 87، اور ذاتی خدمات پر نوازے گئے افراد کی تعداد 2995 تھی۔ ان میں بلوچ غداروں کی تعداد 117 اور پشتون وطن فروشوں کی 61 تھی۔ ’ذاتی خدمات‘ کے نام پر جن افراد کو نوازا گیا، ان میں 914 بلوچ اور 2168 پشتون شامل تھے۔
یہ تمام عطیات ایک شرط کے ساتھ دیے گئے تھے: قوم متحد نہ ہو۔ ان سرداروں کی بنیادی ذمہ داری یہ تھی کہ قبائلی وحدت کو پنپنے نہ دیا جائے۔ جھگڑے کرواؤ، دشمنیاں بڑھاؤ، اور یوں انگریز کو ثالثی کے نام پر ’منصف‘ اور ’محافظ‘ بننے کا موقع دو۔
آج بھی یہ سوال اپنی پوری شدت کے ساتھ زندہ ہے کہ بلوچستان آج تک محروم کیوں ہے؟ جن سرداروں کے دستخط سے زمینیں نیلام ہوئیں، جن کی خاموشی نسلوں کی جہالت کا باعث بنی، جنہوں نے اپنے اقتدار، مراعات اور بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کو قومی مفاد پر ترجیح دی — وہی آج بھی بلوچ عوام کی نمائندگی کے دعوے دار ہیں؟
بلوچستان کا المیہ صرف بیرونی سازشوں کا نتیجہ نہیں بلکہ اندرونی غداری کا ثمر ہے۔ ان سرداروں نے وفاداریوں کے رُخ وقت کے سودے کے مطابق بدلے — کبھی انگریزوں کے در پر، کبھی ریاست کے، اور آج بیرونی ایجنسیوں کے اشاروں پر۔ ان میں سے کچھ آج بھی امریکی، بھارتی، ایرانی اور افغان مفادات کے لیے پراکسی کا کردار ادا کر رہے ہیں — کہیں قوم پرستی کی آڑ میں، کہیں این جی اوز کی چھاؤں میں، اور کہیں انسانی حقوق کی ہمدردی کی شکل میں۔
یہ وقت ہے کہ بلوچ عوام اپنے اصل دشمن کو پہچانیں۔ دشمن وہ ہے جو صدیوں سے ان کی پسماندگی کو دوام دے رہا ہے، جو پشت پر چھرا گھونپ کر مفادات کے محل کھڑا کر رہا ہے۔ اب فیصلے وظائف کی رسیدوں پر نہیں، تاریخ کی روشنی اور قومی شعور کی بنیاد پر ہونے چاہییں۔
تاریخ گواہ ہے کہ غلامی کے عوض وفاداری خریدی جا سکتی ہے، مگر قوموں کی تقدیر نہیں۔ وقت آ چکا ہے کہ بلوچ عوام حقیقت کا سامنا کریں اور وہ آنکھیں کھولیں جنہیں عشروں سے سرداری دھوکے نے بند کر رکھا ہے۔
واپس کریں