پاکستان میں بڑھتی دہشتگردی: ناکام حکومتی پالیسیوں کے نتائج اور قومی اتحاد کی ضرورت
خالد خان۔ کالم نگار
خیبر پختونخوا گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل بدامنی اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، لیکن حالیہ برسوں میں حالات مزید سنگین ہو چکے ہیں۔ صوبے میں تحریک انصاف کی مسلسل تیسری حکومت کے دوران عسکریت پسندوں نے دوبارہ اپنے قدم جمانا شروع کر دیے ہیں، جبکہ صوبائی حکومت ان خطرات کو روکنے میں مکمل ناکام ثابت ہوئی ہے۔ خیبر پختونخوا کی موجودہ بدامنی، حکومتی نااہلی، اور سیاسی جماعتوں کے باہمی اختلافات کا نتیجہ ہے، جس نے شدت پسندوں کو تقویت دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت میں صوبائی حکومتوں نے پالیسیوں میں نہ صرف عدم تسلسل کا مظاہرہ کیا بلکہ ریاستی اداروں کی واضح ہدایات اور سیکیورٹی حکمت عملی کو بھی نظرانداز کیا۔ دہشت گردی کے خلاف مؤثر کارروائی کے بجائے صوبائی حکومت نے مختلف بیانیوں کے ذریعے عوام کو گمراہ کیا، جس کے نتیجے میں دہشت گرد گروہوں کو دوبارہ فعال ہونے کا موقع ملا۔ خیبر پختونخوا حکومت کے کمزور طرزِ حکمرانی کی وجہ سے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے مسلسل حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں، جبکہ حکومت کی جانب سے کوئی جامع حکمت عملی سامنے نہیں آ سکی۔
عسکریت پسند گروہوں کے درمیان "اچھے" اور "برے" کا فرق کرنے کی پالیسی کو ترک کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ دہشت گرد چاہے کسی بھی نظریے سے تعلق رکھتے ہوں، وہ دہشت گرد ہی رہتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں صورت حال اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ وہاں حکومتی عملداری تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
مختصر مدتی مفادات کی بنیاد پر عسکریت پسند گروہوں سے نرم رویہ اختیار کرنے کی پالیسی ایک سنگین غلطی ثابت ہوئی ہے۔ اس حکمت عملی نے پرانے شدت پسند گروہوں کو مضبوط کیا اور نئے انتہا پسند عناصر کو پنپنے کا موقع دیا۔ مخصوص مفادات کے تحت عسکری گروہوں کو "مجاہدین" کہنا اور جب وہ ریاستی اداروں یا مذہبی قیادت کے خلاف ہو جائیں تو انہیں "دہشت گرد" قرار دینا، اس دوغلی پالیسی نے عوام کے اعتماد کو نقصان پہنچایا اور سیکیورٹی بحران کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔
تحریک انصاف حکومت کے دوران بعض عسکری گروہوں کے ساتھ غیر تحریری معاہدے کیے گئے، جن کے نتائج نہایت خطرناک ثابت ہوئے۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ عارضی جنگ بندی اور بعد ازاں اس معاہدے کا خاتمہ خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی کی بگڑتی صورت حال کا ایک بڑا سبب بنا۔ اس دوران، ٹی ٹی پی اور آئی ایس کے پی جیسے گروہوں کے ممکنہ اتحاد نے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے استحکام کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
ریاست کے اہم ادارے، خصوصاً فوج، ہمیشہ قومی سلامتی کو اولین ترجیح دیتے آئے ہیں اور بے شمار قربانیاں دے کر دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو توڑا ہے۔ آپریشن ضربِ عضب اور ردالفساد جیسے اقدامات نے ملک میں امن و استحکام قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ لیکن جب سیاسی قیادت اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے غفلت برتتی ہے اور حکومتی پالیسی کمزور ہو، تو دہشت گرد دوبارہ متحرک ہو جاتے ہیں۔
دائیں بازو کی چند سیاسی جماعتوں کی کابل کے طالبان کے ہاتھوں فتح پر خوشی اور عسکریت پسند گروہوں کے بارے میں ان کا غیر واضح مؤقف مزید عدم استحکام کا باعث بن رہا ہے۔ خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کے خلاف پارٹی سیاست سے بالاتر ہو کر ایک مؤثر اور مستقل حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔
خیبر پختونخوا کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا حل صرف ایک مضبوط، مستحکم اور قومی مفاد پر مبنی پالیسی میں ہے۔ صوبے میں پائیدار امن و استحکام کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ذاتی اختلافات سے بالاتر ہو کر مشترکہ حکمت عملی اپنائیں۔ فوج اور دیگر ریاستی ادارے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، لیکن جب تک حکومتیں اپنے فرائض ادا نہیں کرتیں، تب تک مکمل امن کا قیام ممکن نہیں۔
ریاستی اداروں کو صوبے میں بڑھتی دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے، جبکہ وفاقی حکومت کو خیبر پختونخوا حکومت کی ناکامیوں کا سخت نوٹس لینا ہوگا۔ بدامنی، گورننس کے بحران، اور ترقیاتی فقدان کے مسائل حل کیے بغیر دیرپا امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
شمالی اور جنوبی وزیرستان دہشت گردوں کے مختلف دھڑوں کے عملداری میں ہیں۔ سیکیورٹی ادارے بھی نقل و حرکت کے لیے کرفیو نافذ کیے بغیر قدم نہیں اٹھاتے۔ مقامی انٹیلیجنس ذرائع بھی محفوظ پناہ گاہوں سے خودساختہ رپورٹس جمع کروا کر گمراہی کا سبب بن رہے ہیں۔ حکومتی مخبری ذرائع بھی احتیاط برتتے ہوئے ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان اطلاعات اور زمینی حقائق میں تضادات پائے جاتے ہیں۔
بنوں، لکی مروت اور ڈی آئی خان کو تو مکمل طور پر دہشت گرد گروہوں نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ دہشت گردی خطرے کے نشان سے اوپر جا چکی ہے۔ دہشت گردوں نے خیبر پختونخوا اور پنجاب کی سرحد تونسہ کو پار کرتے ہوئے ڈیرہ غازی خان تک رسائی حاصل کر لی ہے۔
خیبر پختونخوا کے تعلیم یافتہ اور جفاکش لوگوں کے ضلع کرک میں، جہاں تاریخی اور روایتی امن قائم تھا، اب دہشت گردی کی لپیٹ میں آ چکا ہے، جہاں دہشت گردی کے بڑے اور نمایاں واقعات وقوع پذیر ہو چکے ہیں۔ کرک، جو پنجاب کے ضلع میانوالی کے ساتھ سرحدیں شریک کر رہا ہے، اب وہاں کثیر تعداد میں دہشت گرد موجود ہیں۔ کرم، کوہاٹ، ہنگو اور پاراچنار بھی شدت پسندوں کے نرغے میں جا چکے ہیں۔ ان تمام مذکورہ علاقوں کو تحریک طالبان پاکستان اور دیگر مسلح گروہوں نے خودساختہ امارات اسلامی کے نقشے میں شامل کیا ہوا ہے اور یہاں پر باقاعدہ متوازی حکومتیں تشکیل دے چکے ہیں۔ یہ متوازی حکومتیں تسلسل کے ساتھ ابلاغ عامہ کے تمام ذرائع کو اپنی خبریں اور سرکاری پریس ریلیز بھی بھیجتی رہتی ہیں۔ خیبر، مہمند، باجوڑ، دیر، سوات، بونیر، چترال اور ملاکنڈ میں بھی دہشت گردوں کے مضبوط مراکز موجود ہیں جو مکمل فعال ہیں۔
وادیٔ پشاور، جس میں پشاور، نوشہرہ، چارسدہ، مردان اور صوابی شامل ہیں، میں مختلف دہشت گردوں کے فعال نیٹ ورکس موجود ہیں۔ ضلع نوشہرہ کا علاقہ اکوڑہ خٹک، جو پنجاب کے ضلع اٹک سے متصل خیبر پختونخوا کی آخری حدود پر واقع ہے، دہشت گردوں سے بھرا پڑا ہے۔
اگر خیبر پختونخوا کے ساتھ ساتھ پورے ملک کا عمومی جائزہ لیا جائے تو بلوچستان کے اکثر حصے بلوچ علیحدگی پسندوں کے عملداری میں ہیں۔ ناعاقبت اندیش ریاستی پالیسیوں کے نتیجے میں سندھ میں ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں جو سندھی قوم پرستی کو تقویت دے رہے ہیں۔ سندھ کی قوم پرست جماعتیں مسلسل احتجاج کر رہی ہیں اور ان کا شکوہ ہے کہ منظم طریقے سے سندھ کے حقوق غصب کیے جا رہے ہیں۔ سندھ کی زمینوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے جبکہ باقی ماندہ سندھ کا پانی روک کر سندھو دھرتی کو صحرا میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کا سندھی قوم پرستوں کے ساتھ گٹھ جوڑ خارج از امکان نہیں ہے، جو پاکستان مخالف بھرپور تحریک کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سندھ کے بڑے شہری مراکز کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے اربن اور رورل علاقوں کے درمیان واقع قطعات میں جناح پور کے داعی اور پاکستان مخالف قوتیں کسی ایسے موقع کے انتظار میں تیار بیٹھی ہوئی ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ سندھ کی مشترکہ سرحد، کراچی میں "را" کا مؤثر نیٹ ورک، ہندوستان کی سازشیں اور بین الاقوامی دشمن کسی بھی وقت سندھ کو ایک نئی آگ میں جھونک سکتے ہیں۔
پنجاب میں فرقہ وارانہ اور مسلکی تنظیمیں اپنی جڑیں گہری کر چکی ہیں۔ ان مسلکی تنظیموں کے نیٹ ورکس پورے پاکستان میں فعال ہیں، جو پنجاب کی مرکزی جماعتوں کی قوت میں اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ فرقہ وارانہ تنظیمیں پنجاب میں اتنی ہی مضبوط اور منظم ہیں، جتنی بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گرد تنظیمیں ہیں۔ دوسری جانب، پنجاب کی ہندوستان کے ساتھ طویل سرحد اور "را" کی دراندازی اور مداخلت جلتی پر تیل کا کام کر سکتی ہے۔ پنجاب توہینِ مذہب، رسالت، قرآن، اور کافر-مسلمان کے بارود پر بیٹھا ہوا وہ صوبہ ہے، جو کسی بھی وقت معمولی دشمن چنگاری سے دھماکے کے ساتھ پھٹ سکتا ہے۔
خیبر پختونخوا کے زیادہ تر علاقوں میں عمومی طور پر اور جنوبی اضلاع میں خصوصاً رات کے وقت دہشت گردوں کی متوازی حکومتیں قائم ہوتی ہیں۔ شاہراہوں پر ناکے اور شناختی کارڈز کی چیکنگ ہر رات معمول کی سرگرمی ہوتی ہے۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق، سیاسی اور اہم شخصیات اور پولیس اہلکار دہشت گردوں کو باقاعدہ بھتہ دیتے رہتے ہیں تاکہ ان کی سلامتی یقینی رہے۔
بلوچستان میں لڑائی باقاعدہ سائنسی منصوبہ بندی کے ساتھ جاری ہے، جہاں دو محاذوں پر ریاست کو مزاحمت کا سامنا ہے۔ پہاڑوں پر اگر بلوچ علیحدگی پسند قابض ہیں تو شہری محاذ کو خواتین نے مسنگ پرسنز کے آہ و بکا کے ذریعے سنبھالا ہوا ہے، جو دنیا کو متوجہ کر رہی ہیں۔
پاکستان کے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات تاریخ کی نچلی ترین سطح پر جا چکے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ معاملات خراب ہیں، جبکہ ایران کے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں اپنے عزائم، مفادات اور ایجنڈے ہیں۔ ہندوستان تو روزِ اول سے کھلم کھلا دشمنی پر اترا ہوا ہے، جبکہ چین کے اعتماد کو ہم متعدد بار مجروح کر چکے ہیں۔ پاکستان تاریخ کے ایک ایسے دو راہے پر کھڑا ہے، جہاں سے عروج اور زوال کی طرف برابر کی مسافت کی راہیں نکل رہی ہیں۔ اب منزل کا تعین اور اس سمت مضبوط قدم بڑھانا، اگر ہم نے باہم مل کر ایک قوم کی طرح نہیں کیا، تو آگے تباہی اور بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ حکومت، سیاسی قیادت اور ریاستی ادارے ایک صفحے پر آ کر عسکریت پسندی کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑیں۔ دہشت گردی جیسے حساس معاملے کو سیاسی مفادات کی نذر کرنے کے بجائے، تمام جماعتوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ ملک کو ایک بار پھر پائیدار امن ، ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔
واپس کریں