جنید ملک
پچھترویں یوم آزادی کا جشن منانے والوں، موٹر سائکلوں کے سائلنسر نکال کر دوڑانے، رنگ برنگے باجوں سے پاں پاں کرنے اور چودہ اگست کے حوالے سے آئی ایس پی آر کے بنائے گئے نئے گانوں کی دھن پر ناچنے والوں سے گزارش ہے کہ خدارا ایک لمحے کے لیئے رکیں اور اپنی حالت پر غور کریں۔ جس ملک یا جس قوم کی آزادی کا آپ جشن منا رہے ہیں آج اس کی حالت کیا ہے؟
گزشتہ ستر سال سے وردی پوش اور ریٹائرڈ جرنیل آپکی سیاسی، انتظامی، خارجی اور معاشی پالیسی پر قابض ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی ٹریننگ جنگ لڑنے کی ہے لہذا یہ ہر معاملے کو جنگی زاویئے سے دیکھتے ہیں۔ انہیں سفارتکاری، معیشت یا انتظامی امور کا نہ کل تجربہ تھا اور نہ آج ہے۔ سیاسی و انتظامی معاملات پر قابض ہو کر، پڑوسی ممالک سے دشمنیاں پیدا کر کے آپکو مسلسل جنگ کے خوف میں مبتلاء رکھ کر، ملک کے جغرافیائی محل وقوع کی بنیاد پر عالمی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ کر کے اور ان کی جنگوں کا حصہ بن کر، ملک کو تجارت کی بجائے امداد اور قرضوں کے جال میں پھنسا کر، تژویراتی گہرائی کے نام پر شدت پسند گروہوں کو پال کر، ملک میں فرقہ واریت اور شدت پسندی کو فروغ دے کر، آپکو دھشتگردی کے خوف میں مبتلاء کر کے، ملک کی زمینوں پر قابض ہو کر، عالیشان ہاوسنگ سوسائٹیاں بنا کر، ملکی وسائل کے زریعے اپنی کاروباری ایمپائر کھڑی کر کے پچھلے ستر سال سے یہ فوجی جرنیل اپنے اور اپنے اپنی نسلوں کے مستقبل سنوارتے جبکہ آپکا اور آپکے بچوں کا مستقبل بگاڑتے آ رہے ہیں۔ کیا آپکو یہ سب نظر نہیں آتا؟
آج آپکی حالت یہ ہے کہ آپ عالمی برادری کی نظر میں اپنی وقعت اور اہمیت کھو کر مکمل سفارتی تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں۔ سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر تباہ حال ہو چکے ہیں جبکہ دنیا کو آپ کے معاملات سے اب کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ عالمی فورمز میں آپکی شرکت صفر ہو چکی ہے۔ نہ کوئی آپکو بلاتا ہے نہ آپکے یہاں آتا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے آپکی معیشت کو ڈوبتی ہوئی معیشت قرار دے رہے ہیں۔ منی لانڈرنگ اور دھشتگردوں کی فنڈنگ کے الزام میں آپ پر پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ مسلسل تنازعات اور دراندازی کے باعث بھارت اور افغانستان آپکے دشمن بن چکے ہیں۔ ایران سے تعلقات سردمہری کا شکار ہیں۔ دوغلی پالیسیوں کے باعث امریکی آپ سے ناراض ہو کر لاتعلق ہو چکے ہیں۔ سی پیک کے معاہدے پر چین کے ساتھ دھوکہ کرنے پر چین آپ کی مزید ہمایت یا مدد کرنے سے انکاری ہو چکا ہے۔ مسلسل مالی مدد کرنے والا سعودی عرب بھی آپ سے نالاں ہے اور آپکی مزید امداد کرنے میں حیل و حجت سے کام لے رہا ہے۔
معیشت کی بات کی جائے تو پچھلے ساٹھ سالوں میں آپ پیداوار، کاروبار، تعمیر و ترقی اور ایکسپورٹ کے حوالے سے جمود کا شکار ہیں۔ تعلیم پر آپ نے کبھی سرمایہ کاری نہیں کی۔ نوجوان نسل کو تعلیم اور ہنر سے محروم رکھا۔ انفرا سٹرکچر اور انرجی کے شعبوں میں آپکی ترقی نہ ہونے کے برابر رہی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر آج دنیا کو دینے کے لیئے آپکے پاس کچھ نہیں لہذا آپ گلوبل ویلیو چین کا حصہ نہیں ہیں۔ آپکے ملک میں صرف امپورٹ، کھانے پینے اور ریئل سٹیٹ کے شعبے کام کر رپے ہیں جن کا عالمی تجارت سے کوئی سروکار نہیں۔ آپکا تجارتی خسارہ، بجٹ خسارہ اور روپے کی قدر میں گراوٹ تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ انرجی سیکٹر میں آپ صفر ہیں۔ پیٹرول ڈیزل امپورٹ کرتے ہیں۔ بجلی کی کمی کا شکار ہیں۔ آپکے اندرونی و بیرونی قرضے قومی پیداوار کے برابر پہنچ چکے ہیں اور ان کی قسطیں دینے کے لیئے آپ مزید قرضے لینے پر مجبور ہیں۔ یہ ایسے عوامل ہیں جن سے نمٹنے کے لیئے آپ کے پاس نہ کوئی منصوبہ بندی ہے نہ کوئی حل۔
سماجی و سیاسی طور پر آپ تباہ حال ہو چکے ہیں۔ جدید یونیورسٹیوں کی بجائے آپ نے تیس چالیس سال جہادی مدرسوں کے قیام پر زور دیئے رکھا۔ سائنسدانوں اور انجنیئروں کی بجائے دینی عالم پیدا کرتے رہے۔ حب الوطنی اور مزہب کے نام پر آزادی اظہار رائے اور صحتمندانہ بحث مباحثوں پر پابندیاں عائد کرتے رہے۔ فوجی جرنیل تعلیمی اداروں پر ریاستی اثر رسوخ قائم کر کے نوجوان نسل کے ذہنوں کو آلودہ کرتے رہے۔ انہیں ففتھ جنریشن وار کا سبق پڑھاتے رہے۔ عوام کو سیاسی شعور دینے کی بجائے سیاستدانوں کو چور اور جمہوریت کو ایک برا نظام بنا کر پیش کرتے رہے۔ سیاسی انجنیئرنگ کے زریعے کٹھپتلیوں کو اقتدار میں لاتے اور نکالتے رہے۔ سیاسی ارتقاء سے ہمیشہ دور رہے۔ اپنے ہم وطنوں میں غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹتے رہے۔ نوجون نسل کو ہنر سکھانے کی بجائے انہیں مولوی کے پیچھے لگائے رکھا۔ فرقہ واریت کو فروغ دیا۔ جہاد کے نام پر اپنے ملک کے نوجوانوں کو پڑوسی ممالک بھیجتے رہے اور مرواتے رہے۔ دھشتگردوں کی پرورش اور درپردہ حمایت کرتے رہے۔ اپنے ہی شہریوں کے خلاف جنگ کرتے رہے۔ شہریوں کو ماورائے عدالت گرفتار اور قتل کرتے رہے یا جبری طور پر لاپتہ کرتے رہے۔ نفرتوں کو ہوا دیتے رہے۔
آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ آپ دنیا میں تنہا ہو چکے ہیں، سیاسی معاشی اور سماجی طور پر تباہ حال ہو چکے ہیں۔ لہذا ایسے میں یہ غیر حقیقی آزادی کا جشن منانے کی بجائے بہتر ہو گا کہ بطور شہری آپ حقیقی آزادی کی جستجو کا آغاز کیجیئے اور اپنے حقوق کی خاطر آواز اٹھائیے۔ یاد رہے کہ بحیثیت عوام آپ رہاست کے مالک ہیں اور ریاست کا فرض آپکو صحت، تعلیم، ترقی، روزگار، تحفظ، صحتمند معاشرہ اور آزادانہ ماحول فراہم کرنا ہے۔ آپکے وسائل پر چند جرنیلوں، بیوروکریٹوں، ججوں اور اسمبلی ممبران کی عیاشی کا سامان پیدا کرنا نہیں۔ اسی طرح فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ پارلیمنٹ کی دیواریں پھلانگنا، اقتدار پر قبضہ کرنا، سیاسی انجنیئرنگ کرنا، خارجی، داخلی پالیسیاں بنانا، ججوں سے فیصلے کروانا، ہاوسنگ سوسائیٹیاں بنانا یا کاروباری ایمپائر کھڑی کرنا نہیں۔ یہ بات آپ جتنی جلدی سمجھ جائیں آپ کے لیئے اتنا ہی بہتر ہے۔
واپس کریں