دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان کا مستقبل کیا دیکھ رہا ہوں!!!
جنید ملک
جنید ملک
دوستوں نے سوال کیا ہے کہ پاکستان کا مستقبل کیا دیکھ رہا ہوں۔ ان تمام دوستوں کو بتانا چاہوں گا کہ میں نہ تو کوئی دانشور ہوں نہ سیاستدان، نہ فلسفی نہ نجومی۔ میں کوئی پیشن گوئی نہیں کر سکتا البتہ زندگی کے اسرار و رموض سمجھنے کی جستجو میں مصروف ایک طالب علم کے طور ہر ماضی اور حال کے سیاسی و سماجی واقعات اور روایات کا جائزہ لے کر ایک اندازہ ضرور لگا سکتا ہوں۔ اور میرا خیال ہے کہ میرا اندازہ کافی سارے دوستوں کے لیئے تشویش کا باعث بنے گا۔ لیکن کیا کروں مجبور ہوں۔ میں آپ کو خوش کرنے یا تسلی دینے کے لیئے بہتر مستقبل کی جھوٹی امید نہیں دے سکتا۔

ملک کے ماضی کا بغور جائزہ لیں تو دکھائی دیتا ہے کہ مفاد پرستوں نے جس مقصد کے لیئے انگریز سے یہ ریاست حاصل کی تھی وہ مقصد بڑی کامیابی سے پورا ہوتا رہا ہے۔ فرق صرف یہ پڑا کی طاقت کا مرکز علیگڑھ سے فارغ التحصیل اشرافیہ، پنجاب اور سندھ کے جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھ سے نکل کر افسر شاہی اور پھر فوجی جرنیلوں کو منتقل ہو گیا۔ ماضی کی تفصیل میں جانے کی بجائے فقط اتنا کہنا بہتر ہو گا کہ جناح صاحب نے جس نظام کی بنیاد گورنر جنرل کے عہدے کے زریعے رکھی وہ نظام چیف آف آرمی سٹاف کی مطلق العان بادشاہت پر آ کر ٹک گیا ہے۔ جناح صاحب کی گورنر جنرلی کے بعد ایک سول حکومت کا دور آیا جو آٹھ سال چلا لیکن پھر افسر شاہی نے غلام محمد کیے زریعے اور عدلیہ کی مدد سے اسے لپیٹ دیا اور گورنر جنرلی بحال کر دی۔ افسر شاہی کو عیاشی کا زیادہ وقت نہ مل پایا اور عرصہ دراز سے اقتدار حاصل کرنے کے شوقین جنرل ایوب نے بندوق کے زور پر ان کی بساط پلٹ دی۔ ایوب خان سے شروع ہونے والا سفر مختلف مراحل طے کرتے ہوئے فوج کی مکمل اجارہ داری پر اختتام پزیر ہوا۔ اس دوران فوج نے ملک کے معاشی نظام کو مستقل طور پر مفلوج رکھتے ہوئے سارا زور دفاع پر مرکوز رکھا۔ پڑوسی ممالک سے تنازعات پیدا کیئے اور انہیں بڑھاوا دیا۔

عوام کو معاشی و سماجی ترقی کی بجائے جنگی جنون میں مبتلاء رکھا اور فوج کو مقدص گائے بنا دیا گیا۔ ملکی معیشت کو تجارت کی بجائے امریکی امداد اور عالمی مالیاتی اداروں سے ملنے والے قرضوں پر چلنے والی معیشت میں تبدیل کر دیا۔ خود کاروباری ادارے کھول لیئے، ہاوسنگ سوسائیٹیاں بنا لیں لیکن ملکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر دیا۔ اس پر ستم یہ کہ جرنیلی اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیئے عوام کو مولوی کے پیچھے لگا دیا اور ڈالروں کے حصول کی خاطر شدت پسندی کو فروغ دیتے ہوئے ملک کو دھشتگردوں کی آماجگاہ بنا دیا۔ تنقید کرنے اور حق مانگنے والوں پر دنیا تنگ کر دی گئی۔ جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل، جھوٹے مقدمے غرض ہر طریقے سے عوام کو دبایا گیا۔ اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے اور عوامی رد عمل سے بچنے کے لیئے فوج نے مختلف اوقات میں کٹھپتلیوں کے زریعے جمہوری نظام کے تجربے بھی کیئے۔ متعدد بار عوامی حکومت اور الیکشن کے ڈرامے کیئے گئے۔ بلکہ پہلے ڈرامے کے نتیجے میں تو آدھا ملک تک گنوا دیا گیا۔ کٹھپتلیوں کے زریعے عوامی حکومتوں والا تجربہ بہرحال ناکام ثابت ہوا کیونکہ فوج کی کٹھپتلیاں فوجی انداز میں یس سر کہہ کر حکم کی تعمیل کرنے کی بجائے نافرمانیاں کرتی رہیں اور وسائل یا معاشی نظام پر جس کنٹرول کی جرنیلوں کو خواہش تھی وہ انہیں حاصل نہ ہو سکا۔ 2011 میں بالآخر فوج نے اس مسئلے کا حل ہائبرڈ نظام کی صورت میں تلاش کر لیا۔

ہائبرڈ نظام کے تجربے کے لیئے سابق جرنیلوں کی مدد سے ایک مہرہ تیار کیا گیا۔ نرگسیت کے شکار ایک عیاش طبع کرکٹر کو اس کام کے لیئے چنا گیا۔ ابتدائی طور پر اسے جہادی خیالات رکھنے والے ایک جرنیل کے حوالے کیا گیا جس نے اس کی نظریاتی تربیت کر کے اسے نیم طالب بنا دیا۔ اس مہرے کو پہلے 2002 میں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ضدی اور خودسر طبیعت کے باعث یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ بعد میں اس کی ضدی اور خودسر طبیعت کو بتدریج نرم کیا گیا اور 2011 میں اسے لانچ کر دیا گیا۔ اس دوران فوج نے اپنے عوامی رابطے کے ونگ یعنی آئی ایس پی آر، ریٹائرڈ جرنیلوں اور مخصوص میڈیا چینلوں کے زریعے عوام خاصکر نوجوانوں کی بھرپور ذہن سازی پر زور رکھا۔ تعلیمی اداروں میں باقائدہ فوکل پرسنز تعینات کیئے گئے جنہوں نے ایک طرف تو نوجوانوں کو ففتھ جنریشن وار نامی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا اور دوسری طرف انہیں کامل یقین دلا دیا کہ تمام سیاستدان چور ہیں جو ملک کی دولت لوٹ کر باہر لے جا رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں سے نوجوانوں کو بھرتی کر کے سوشل میڈیا ٹیمیں بنائی گئیں۔ اپنے نئے سیاسی مہرے کے زریعے سیاسی کیمپین شروع کروائی گئی۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی بھی بھرپور طریقے سے ذہن سازی کی گئی۔ گالی گلوچ اور بدتہزیبی کے ایک کلچر کو متعارف کروایا گیا۔ پھر 2018 میں فوج نے اپنے مہرے کو اقتدار دلوا کر بالآخر ہائبرڈ نظام یعنی ملکی وسائل، معیشت اور پالیسی سازی پر مکمل طور پر قبضہ کر لیا۔ تمام اداروں میں فوجی جرنیل بٹھا دیئے گئے۔

خارجہ پالیسی تو خیر تھی ہی جی ایچ کیو کے پاس لیکن پھر معاشی پالیسی بھی جی ایچ کیو بنانے لگا۔ ان تین سالوں کے دوران ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ بیرونی قرض لیا گیا۔ تمام سرکاری ٹھیکے فوجی اداروں کو ملنے لگے۔ فوجی کاروباروں کو تمام ٹیکسوں سے استثنا حاصل ہو گیا۔ ہر بڑے شہر میں ڈی ایچ اے تعمیر ہونے لگے۔ تیل، گیس، معدنیاتی ذخائر پر بھی فوجی اجارہ داری قائم ہو گئی۔ اوپر سے فوج پر تنقید کو ناقابل معافی جرم قرار دے دیا گیا۔ دوسری طرف کٹھپتلی کا کام صرف فوج کے حکم پر غیر ملکی دورے کر کے بھیک مانگنے یا ہر تھوڑے دن بعد میڈیا پر آ کر اپنے فالورز سے خطاب کرنے کی حد تک محدود تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں نہ کہ انسان کے منصوبے قدرت کے نظام کے آگے بے بس ہو جاتے ہیں۔ ہائبرڈ نظام کا انجام بھی کچھ اسی طرح کا ہوا اور چلتی ہوئی ملکی معیشت تین سال میں زمیں بوس ہو گئی۔ اس انجام کے پیچھے کئی عوامل تھے لیکن سب سے اہم یہ تھا کہ گزشتہ کئی سالوں سے بکنے والا جہادی چورن اب بکنا بند ہو چکا تھا۔ بلکہ الٹا دنیا پاکستان پر پابندیاں لگانے کے درپے تھی۔ ناکام خارجہ پالیسی کے باعث امریکہ اور چین دونوں سے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے۔

چین کے ساتھ سی پیک پر کام دک گیا تھا۔ امریکہ کی افغانستان سے واپسی کے بعد امریکی نوازشات بند ہو چکی تھیں۔ حالت یہ ہو گئی تھی کہ دفاعی بجٹ اور مراعات تو دور کی بات ہے فوج کی تنخواہ اور پینشن کے لالے پڑ گئے تھے۔ ایسے میں جرنیلوں نے عجلت میں ایک نیا منصوبہ ترتیب دیا اور 2018 والی کٹھپتلی کو ہٹا کر نئی کٹھپتلیوں کو اقتدار دے دیا۔
آجکل صورتحال یہ ہے کہ پرانی کٹھپتلی کو ہٹانا فوج کے گلے پڑا ہوا ہے۔ سابق وزیر اعظم زبردستی ہٹائے جانے پر فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ فوج کے اپنے ریٹائرڈ یا حاضر سروس افسران اور تعلیمی اداروں یا فوج کے بنائے ہوئے سوشل میڈیا سیل کے نوجوان جن کی مخصوص انداز میں ذہن سازی کی گئی تھی اب کٹھپتلی کو اپنا لیڈر اور نجات دہندہ مانتے ہیں۔ ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسران فوجی جرنیلوں کے سامبے ڈٹ کر کھڑے ہیں اور فوج کے ہی تربیت یافتہ نوجوان سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف ہی پراپگینڈہ مہم چلا رہے ہیں۔ نئی کٹھپتلی حکومت عملی طور پر بے بس ہے کیونکہ خزانہ خالی ہے اور معیشت بیٹھ چکی ہے۔ مہنگائی کا طوفان وراثت میں ملا ہے جو سنبھالا نہیں جا رہا۔ تجارتی اور بجٹ خسارہ تاریخی سطح پر پہنچ چکا ہے۔ اوپر سے اعلی عدالتیں اور ایوان صدر قانون سازی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ایک ارب ڈالر قرضے کے حصول کی خاطر آئی ایم ایف کی منتیں کی جا رہی ہیں اور آیی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیئے تیل، بجلی گیس وغیرہ ناقابل برداشت حد تک مہنگی کی جا رہی ہیں۔ عوام بلک رہے ہیں اور کٹھپتلیوں کو گالیاں دے رہے ہیں۔ قرضہ ناقابل برداشت حد تک بڑھ چکا ہے اور اب کوئی ملک یا مالیاتی ادارہ مزید قرض دینے پر تیار نہیں ہے۔ جبکہ معیشت کی گاڑی مزید قرضے کے بغیر چل ہی نہیں سکتی۔ دوسری طرف فوج اپنے کنٹرول کی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے اور مستقبل میں کنٹرول قائم رکھنے کے لیئے ایک نیا دشمن پیدا کرنے پر کام کر رہی ہے۔ چند سال پہلے اربوں روپے خرچ کر کے ایک فوجی آپریشن کے زریعے دھشتگردوں اور شدت پسندوں کو ختم کرنے اور ان کی کمر توڑ دینے کا دعوی کیا گیا تھا لیکن امریکہ کی افغانستان سے واپسی کے فوری بعد وہی دھشتگرد دوبارہ نمودار ہو کر فوج کے خلاف صف آرا ہو گئے۔

اس بار ایک طرف تو خزانہ خالی ہے اور دوسری طرف فوج کے کاروباری مفادات اتنے وسیع ہو گئے ہیں کی وہ شدت پسندوں سے لڑنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ لہذا جن دھشتگردوں کی کمر توڑنے کا دعوی کیا تھا ان سے مزاکرات کر کے ان کی انتہائی خطرناک شرائط تسلیم کرتے ہوئے انہیں دوبارہ منظم ہونے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ ان شرائط میں دھشتگردوں کو عام معافی دینے کے علاوہ انہیں ہتھیار رکھنے، ملک کے چند مخصوص علاقوں میں کنٹرول قائم کرنے اور ان علاقوں میں آئین پاکستان کی بجائے دھشتگردوں کے اپنے قوانین نافز کرنے کی اجازت دینا شامل ہیں۔ شرائط منظور ہونے کی صورت میں ملک دوبارہ 2009 والی حالت میں پہنچ جائے گا جب قبائلی علاقوں کے علاوہ سوات وغیرہ میں بھی دھشتگردوں کی ریاستیں قائم تھیں، حکومت کی رٹ صفر تھی اور دھشتگرد پورے ملک میں آزادانہ قتل وغارت گری کر رہے تھے۔

ان حالات کی روشنی میں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں جو نتائج اخز کیئے جا سکتے ہیں وہ یہی ہیں کہ ملک شدید ترین معاشی بہران کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر دھشتگردوں کی آماجگاہ بننے جا رہا ہے۔ ملک عالمی پابندیوں کی زد میں ہو گا، عوام شدید قسم کی مہنگائی کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر بم دھماکوں اور گولیوں کے سائے میں ہونگے۔ دوسری طرف فوج خود کو نجات دھندہ اور دھشتگردی کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر پیش کرتے ہوئے وسائل اور نظام پر قبضہ برقرار رکھے گی۔ لیکن اس بار عالمی برادری کی طرف سے امداد تو دور کی بات ہے ہمدردی بھی نہیں ملے گی۔ الٹا پابندیاں لگیں گی جن کے باعث معیشت مزید تباہ ہو جائے گی۔ اگر آسان الفاظ میں اور مختصر طور پر بیان کیا جائے تو یہ ملک مجھے مستقبل کا شمالی کوریا بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ دنیا سے کٹا ہوا، معاشی طور پر تباہ حال اور جہاں جرنیل تمام وسائل پر قابض ہیں جبکہ عوام فاقوں پر مجبور ہیں۔ بلکہ یہاں تو شمالی کوریا سے زیادہ برا حال ہو گا کیونکہ شمالی کوریا میں شدت پسند یا دھشتگرد تنظیمیں موجود نہیں اور نہ ہی وہاں کی فوج نے دھشتگردوں سے امن معاہدے کیئے ہوئے ہیں۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
واپس کریں