دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سپریم کورٹ ۔ ججوں کی تقرری کا کوئی ضابطہ موجود نہیں
جنید ملک
جنید ملک
کل سپریم جوڈیشل کاونسل کی میٹنگ کے دوران ہونے والی گفتگو سنی جو کہ جسٹس فائز عیسی اور جسٹس سردار طارق کے اصرار پر پبلک کی گئی۔ گفتگو سننے کے بعد اندازہ ہوا کہ پچھتر سال گزرنے کے باوجود اس ملک میں سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری کا کوئی ضابطہ ہی موجود نہیں۔ چیف جسٹس اپنی مرضی کے نام دیتا ہے اور سینیئر ججوں کے کوائف تقابل کے لیئے پیش ہی نہیں کیئے جاتے۔ اس بات کی وضاحت بھی نہیں کی جاتی کہ چیف جسٹس کی طرف سے نامزد کیئے گئے یہ چند افراد کس بنیاد پر چنے گئے ہیں یا باقیوں سے کیوں بہتر ہیں۔

حالیہ دنوں میں پیش آنے والے واقعات سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ ملک کا سب سے طاقتور ادارہ ہے اور چیف جسٹس کی کرسی پر بیٹھنے والا شخص بیک جنبش قلم آئین اور پارلیمان کے فیصلے تک تبدیل کرنے کے اختیارات رکھتا ہے۔ لیکن افسوس کہ اس ادارے میں ججوں کی تقرری اقربا پروری یا فیورٹزم کے زریعے کی جاتی ہے۔ یعنی اہسے افراد اوپر آتے ہیں جو میرٹ کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر ہوتے ہیں اور جو اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر فیصلے کرتے ہیں۔ دوسری طرف اطہر من اللہ اور نعیم اختر جیسے سینیئر ترین ججوں کے نام ہی نہیں دیئے جاتے۔ یاد رہے کہ پچھلے دور حکومت میں ججوں کی تقرری کے لیئے ایجنسیوں کی کلیئرنس بھی لازمی قرار دے دی گئی ہے۔

میٹنگ کی کاروائی سننے کے بعد عام پاکستانی کو کم از کم یہ اندازہ تو ضرور ہو جانا چاہیئے کہ ثاقب نثار، گلزار، کھوسہ، بندیال یا اعجاز الحسن جیسے اسٹیبلشمنٹ کے دلال چیف جسٹس کی کرسی پر کیسے پہنچتے ہیں۔ اور یہی دلال بعد میں اپنی مرضی کے جج سپریم کورٹ میں بھرتی کرتے ہیں جو آگے چل کر لانے والوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ ان حالات میں ہمیں کم ازکم اب یہ امید چھوڑ دینی چاہیئے کہ یہ ملک فوج کے قبضے سے آزاد ہو کر ایک خودمختار جمہوری ملک بن سکتا ہے۔
واپس کریں