جنید ملک
آجکل ملک کی سیاسی و سماجی صورتحال کو لے کر ہر خاص و عام تذبذب میں مبتلاء ہے اور لوگ حتی المقدور اپنی ماہرانہ رائے دے رہے ہیں۔ تو میں نے سوچا کہ مختلف حلقوں کی جانب سے پیش کی گئی ان آراء میں سے دو قابل ذکر متضاد بیانیوں پر تبصرہ کروں اور دوستوں کو غور فکر کا ایک موقع فراہم کروں۔
پہلا بیانیہ اکثریتی رائے کے مطابق ہے اور اکثریت کا خیال یہ ہے کہ پی ڈی ایم نے فوج کا پھیلایا ہوا گند اپنے سر لے لیا ہے جس کے نتیجے میں پی ڈی ایم کی جماعتیں خاصکر ن لیگ ایک بند گلی میں داخل ہو چکی ہیں جہاں سے آگے جانا ممکن نہیں اور واپسی کا راستہ بھی شدید دشوار ہے۔ بظاہر اس خیال میں خاصہ وزن ہے کیونکہ شہباز شریف نے ایک تباہ شدہ معیشت اور پولرائزیشن کا شکار معاشرے کا بوجھ اپنے کاندھوں پر لاد لیا ہے جبکہ اس بربادی کے اصل ذمہ داران یعنی جرنیل اپنے آپ کو نیوٹرل قرار دیتے ہوئے اس بوجھ سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف عمران نیازی نامی شخص ملک کو اس حال تک پہنچانے کے باوجود مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر امریکی سازش کی کہانی کے پیچھے جا چھپا ہے اور تمام تر ذمہ داریوں سے مبرا ہو کر اپنی گری ہوئی سیاسی ساخ کسی حد تک بحال کر چکا ہے۔ ان حالات میں حکومت ایک طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث عوامی تنقید کی ذد میں ہے تو دوسری طرف معیشت کو بہتر کرنے کے لیئے درکار سیاسی استحکام سے بدستور محروم ہے۔ ایک لنگڑا لولا سیٹ اپ جس میں متضاد سیاسی منشور رکھنے والی جماعتیں شامل ہوں جبکہ ملک کا صدر کھل کر حکومتی معاملات میں روڑے اٹکانے پر تلا ہوا ہو تو نظام کیسے چلے گا۔ اوپر سے نیازی جلسے جلوسوں اور تند و تیز بیانات کے زریعے سیاسی افراتفری پھیلانے میں لگا ہوا ہے جبکہ فوج نیوٹرل ہونے کا ڈرامہ رچا کر بیٹھی ہے جس کے باعث نیازی کو قابو کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ فوج نے محکمے کی ساخ بچانے اور نومبر میں ہونے والی آرمی چیف کی تقرری اپنے مفادات کے مطابق کروانے کے لیئے عجلت میں اپوزیشن کو ایک دانہ ڈالا جو انہوں نے نگل لیا ہے۔
دوسرا بیانیہ زرا مختلف ہے اور اقلیتی رائے پر مبنی ہے۔ اس کے مطابق اپوزیشن پارٹیوں کی قیادت منجھے ہوئے سیاستدانوں پر مشتمل ہے جو ماضی میں فوج کے ہاتھوں بار بار ڈسے جانے کے بعد خاصے کہنہ مشق ہو چکے ہیں۔ ان تجربہ کار سیاستدانوں نے دانستہ طور پر فوج کا ڈالا ہوا دانہ چگ کر نیازی حکومت کو چلتا کیا ہے تاکہ معاشی و سیاسی بربادی کو پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جانے سے پہلے روک دیا جائے اور معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیئے جائیں۔ اس بیانیئے کے مطابق پی ڈی ایم کی حکومت پی ٹی آئی کی طرف سے فوج پر ہونے والی تنقید کو دانستہ طور پر نظر انداز کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی کاروائی سے گریز کر رہی ہے تاکہ ستر سال اپنے حلف سے روگردانی کرتے ہوئے سیاست میں براہراست مداخلت کرنے والا فوج کا محکمہ پوری طرح ایکسپوز ہو جائے اور پھر دوبارہ سیاست کا رخ نہ کرے۔ موجودہ حکومت خاصکر ن لیگ کی ترجیہات میں معاشی یا سیاسی اصلاحات شامل نہیں ہیں کیونکہ ان اصلاحات کے لیئے مینڈیٹ کے ساتھ ساتھ پانچ سال کا عرصہ درکا ہوتا ہے اور ایک سال میں یہ تبدیلیاں ناممکن ہیں۔ یعنی حکومت کا فوکس اگلے انتخابات ہیں لہذا ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہے۔ اگر غور کیا جائے تو بات میں خاصہ وزن ہے کیونکہ ن لیگ کی اصل عوامی قیادت یعنی نواز شریف اور مریم نواز موجودہ سیٹ اپ کا حصہ نہیں ہیں لہذا کسی بھی قسم کی ذمہ داری قبول کرنے کے مجاز بھی نہیں۔ اگلے انتخابات میں جب اصل قیادت سامنے آئے گی تو عوام اسے ووٹ دے گی۔ اس دوران نیازی فوج پر کیچڑ اچھالتا رہے گا اور فوج مزید بیک فٹ پر جاتی جائے گی۔ جہاں تک نیازی کا تعلق ہے تو 2011 کے بعد سے جب اسے مسلح افراج، ایجنسیوں، عدالتوں اور میڈیا کی مکمل سرپرستی حاصل تھی وہ تب بھی سیاسی طور پر اس قابل نہ تھا کہ اپنی حکومت بنا سکے اور فوج کو اسے دھاندلی، ہارس ٹریڈنگ اور مالی معاونت کر کے زبردستی اقتدار میں لانا پڑا تھا۔ لہذا موجودہ حالات میں جب وہ تمام سرپرستیوں سے محروم ہو چکا ہے اس کی حیثیت شادی کی تقریب میں ایک ڈھول بجانے والے سے زیادہ نہیں ہے جو شور تو بہت ڈالتا ہے لیکن شادی سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔
تو دوستو یہ تھے دو متضاد آراء پر مبنی تجزیات۔ ان دونوں تجزیات کو پڑھنے کے بعد آپ خود فیصلہ کیجیئے کہ ان میں سے کونسا تجزیہ آپ کے موقف کی تائید اور حقائق کی ترجمانی کر رہا ہے۔
واپس کریں