دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے اہلِ چمن
جنید ملک
جنید ملک
اوور سیز بھارتیوں نے اس سال 125 ارب ڈالر کا زر مبادلہ ملک بھیج کر دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ رقم لگ بھگ پاکستان کے کل بیرونی قرضے کے برابر ہے۔ دوسری طرف ہمارے اوور سیز پاکستانی ہیں جو نیازی کے پچھواڑے سے نہیں نکل پا رہے ہیں۔
بھارتیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی ریمیٹنس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پڑھے لکھے اور ہنرمند شہری ریاست کا سب سے اہم سرمایہ ہوتے ہیں اور ہیومن ڈولپمنٹ ریاست کی سب سے اہم سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ بھارت نے 80 کی دھائی سے اپنے شہریوں کی تعلیم و تربیت پر سرمایہ کاری شروع کر دی تھی۔ متعدد حکومتیں تبدیل ہونے کے باجود شہریوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق پالیسی مسلسل برقرار رہی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی، بزنس مینجمنٹ، میڈیکل اور انجنیئرنگ کی اعلی یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ شہریوں کو مختلف ہنر سکھانے کے متعدد ادارے قائم کیئے گئے۔
ہیومن ڈولپمنٹ پر سرمایہ کاری کے نتیجے میں ہر سال لاکھوں آئی ٹی، اور بزنس کے ماہر گریجویٹس، انجنیئرز اور ڈاکٹرز کے ساتھ ساتھ متعدد شعبوں میں ماہر ہنرمند افراد ان اداروں سے نکل کر مارکیٹ میں آتے گئے۔ جو ملک میں سیٹل نہ ہو سکے وہ باہر چلے گئے اور ترقی یافتہ ممالک میں انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ آج بھارتی دنیا بھر میں آئی ٹی، بزنس، انجنیئرنگ، میڈیکل اور کنسٹرکشن کے شعبوں میں چھائے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی بات کی جائے تو پالیسی سازوں کی طرف سے اسی کی دھائی میں یہاں آئی ٹی یا بزنس کی بجائے دینی مدرسوں پر سرمایہ کاری کی گئی اور لگ بھگ چالیس ہزار مدرسے قائم کیئے گئے۔ اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں پہلے جہادیوں کی بھرمار ہوگئی اور بعد میں فرقہ پرست ایک دوسرے کے گلے کاٹتے دکھائی دیئے۔
آجکل لوگ گستاخ گستاخ کافر کافر بول کر لوگوں کو مارنے دوڑ رہے ہیں۔دوسری جانب دنیا بھر کے ممالک پاکستانی لیبر کو یہ کہہ کر واپس بھیج رہے ہیان کہ یہ لوگ ہنرمند نہیں ہیں اور انتہائی سست ہیں۔ جو چند پڑھے لکھے اوور سیز پاکستانی ہیں وہ پی ٹی آئی کے جھنڈے اٹھائے کرپشن کرپشن چور چور چلاتے یورپ، امریکہ اور مڈل ایسٹ کی سڑکوں پر ناچ رہے ہیں۔
واپس کریں