دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
میرے دل کا غبار ۔ جنید ملک
جنید ملک
جنید ملک
سمجھ نہیں آ رہا کہ کہاں سے شروع کروں۔ کافی دنوں سے شش پنج میں مبتلا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ملک کی تمام بڑی سیاسی پارٹیوں نے فوج کے ہاتھوں مسلسل ہزیمت اٹھانے کے باوجود ان مشکل حالات میں فوج کی پیدا کی ہوئی برائی اپنے سر لینے کا فیصلہ کر لیا اور فوج کے ہاتھوں تباہ ہونے والی معیشت کو اپنا لیا؟ کہنہ مشق سیاستدانوں سے ایسی نادانی کی توقع نہیں تھی کہ ایک ایسے موقع پر جب فوج اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھے میں گرنے جا رہی تھی تو ان سب نے مل کر اسے بچا لیا۔ بہت سوچ بچار اور تحقیق کے بعد بالآخر یہ گتھی سلجھنے لگی ہے اور جوابات ملنے لگے ہیں۔ لیکن دل بہت دکھی ہے کیونکہ جہاں اور جس معاملے پر بھی گہرائی میں جا کر تحقیق کی تمام حوالہ جات ایک ہی طرف اشارہ کرتے پائے گئے۔ حب الوطنی کی آڑھ میں تباہی پھیرنے والوں کے بارے میں جتنی زیادہ معولومات حاصل ہوئیں اتنا ہی غم بڑھتا گیا۔ لیکن سوچا آج دل کا غبار نکال ہی دوں۔
جنرل شیر علی خان پٹودی کے دور سے شروع ہونے والی داستان آج اس موڑ پر آ گئی ہے کہ تمام راستے بند دکھائی دے رہے ہیں جبکہ واپسی کی راہ بھی مسدود ہو چکی ہے۔ انگریز سرکار نے مقامی افراد پر مشتمل ایک فوج تیار کی جس کا بنیادی مقصد عوام کو قابو میں رکھنا اور ان کی طرف سے سرکار کے خلاف ہونے والی مزاہمت یا بغاوت کو کچلنا تھا۔ اس دور میں نئی روایات کی بنیاد رکھی گئی جن کے مطابق حب الوطنی کا مطلب عالمی سامراج کی اطاعت اور عوام کی طرف سے کی جانے والی مخالفت کو دشمنی کا درجہ دینا تھا۔ انگریز نے اس فوج کی تربیت انہیں روایات کے مطابق کی۔ پھر دو سو سال حکمرانی کے بعد انگریز تو واپس چلا گیا لیکن مقامی فوج کی روایات شیر علی خان پٹودی اور ایوب خان جیسے لوگوں کے حوالے کر گیا۔ جنرل شیر علی پٹودی جس نے ایوب خان کو سیاست کی طرف مائل کیا اور اسے تحفظ فراہم کیا۔ یہ جنرل شیر علی ہی تھا جس نے ایوب خان کو مارشل لاء لگانے اور پھر مزہب اور حب الوطنی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی ترغیب دی۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں آج بھی انہی روایات کی بنیاد پر مقامی افراد کی تربیت کی جاتی ہے اور ان کے سامنے اپنے ہی شہریوں کو مشکوک اور سیکیورٹی رسک بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سو سال قبل تک عالمی سامراج کی اطاعت حب الوطنی کا درجہ رکھتی تھی اور اب اس کی جگہ فوج کے کارپوریٹ مفادات نے لے لی ہے۔
فوج کے کارپوریٹ مفادات جن کی داغ بیل ایوب خان نے ڈالی اور اعلی افسران کو زمینوں، پلاٹوں، اور کاروباروں کا چسکا لگایا اور پھر رفتہ رفتہ ان مفادات کی حفاظت سب سے اہم فریضہ بن گیا۔ ان مفادات کی خاطر ملک کو پینسٹھ کی جنگ میں دھکیلا گیا۔ انہیں مفادات کی خاطر مشرقی پاکستان میں ظلم کے پہاڑ توڑے گئے اور ملک دولخت کر دیا گیا۔ پھر ان مفادات کی خاطر افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کیا گیا اور بعد میں امریکہ کا اتحادی بن کر افغانوں کے خلاف جنگ لڑی گئی۔ اور آخر میں انہی کارپوریٹ مفادات کی خاطر ملک کا اقتدار ایک نااہل اور منافق شخص کو دے دیا گیا۔ بوٹ پالشی صحافی اور دیگر افراد فوج کے جس نظم و ضبط یا ڈسپلن کی مثالیں دیتے ہیں یہ انہی کارپوریٹ مفادات کی بنیاد پر قائم ہے۔ ان مفادات کی خاطر جہاں جرنیلوں نے سیاستدانوں کو نا اہل، سیکیورٹی رسک اور غدار قرار دیا وہیں مشکل پڑنے پر ان نااہل سیاستدانوں کے آگے ناک رگڑنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اکہتر کی جنگ کے بعد بھٹو کے آگے گڑگڑا کر ناک رگڑی اور اپنے کارپوریٹ مفادات کو عوام کے قہر سے محفوظ رکھا۔ پھر سارا الزام بھٹو پر تھوپ دیا اور آخر میں اسی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا کر اپنی سبکی کا بدلہ لیا گیا۔ کارگل کی جنگ میں بری طرح ناکام ہونے کے بعد نواز شریف کے آگے ناک رگڑی اور منتیں کر کے اسے صدر کلنٹن کے پاس بھیج کر جنگ بندی کروائی۔ بعد میں اپنی ناکامی کا سارا ملبہ اسی نواز شریف پر ڈال دیا اور جوابدہی سے بچنے کے لیئے اسے معزول کر دیا۔
2014 کے بعد جب ملک ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن تھا تو فوج نے اپنے کارپوریٹ مفادات کی خاطر ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والی سیاسی قیادت کو چور اور کرپٹ مشہور کروا کر ایک نااہل شخص کو ہیرو بنا کر آگے کر دیا۔ اور چار سال بعد اسے اقتدار میں بھی لے آئی۔ یہ شخص پچھلے بیس سال سے سیاست میں دھکے کھا رہا تھا اور اسے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا لیکن پھر فوج کی مہربانی سے راتوں رات ملک کی تیسری بڑی سیاسی پارٹی کا سربراہ بن گیا۔ اس نااہل کٹھپتلی نے اقتدار سنبھالتے ہی تمام وسائل جرنیلوں کے حوالے کر دیئے۔ تمام ترقیاتی کام اور عوامی فلاحی منصوبے روک دیئے گئے۔ ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ اندرونی و بیرونی قرضے لیئے گئے اور سب ہڑپ کر لیئے گئے۔ عالمی وباء کے باعث بے تحاشہ غیر ملکی امداد آئی اور غائب ہو گئی۔ ہر محکمہ ہر ادارہ جرنیلوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والی لوٹ مار کے باعث تین سال میں ہی معیشت تباہ ہو گئی اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ اس موقع پھر جرنیلوں کو احساس ہوا کہ ملک دیوالیہ ہوا تو ان کے کارپوریٹ مفادات بھی باقی نہیں رہیں گے لہذا جرنیل انہی سیاستدانوں کے پیر پڑ گئے جنہیں چار سالوں کر دوران مسلسل رسواء کیا تھا۔ اس موقع پر ملکی سالمیت اور بقاء کی دھائیاں دی گئیں اور گڑگڑا کر ملک بچانے کی التجائیں کی گئیں۔ بدلے میں تمام شرائط ماننے کی ضمانتیں دی گئیں۔ پھر وقت نے یہ منظر بھی دیکھا کہ کرپٹ اور نااہل قرار دیئے گئے سیاستدان ملکی بقاء کی خاطر زہر کا وہ پیالہ پینے پر راضی بھی ہوگئے۔ لیکن یہاں بر جرنیل پھر سے چالاکی کر گئے اور ملکی سالمیت کے جوش میں آگے بڑھنے والے سیاستدانوں کو ایک بار پھر اپنے کارپوریٹ مفادات کی بھینٹ چڑھانے پر تل گئے۔ جرنیلوں نے نیوٹرل ہونے کی آڑھ لیتے ہوئے تمام نتائج کی ذمہ داری سیاستدانوں کے سر ڈال دی ہے اور اپنے لائے ہوئے کٹھپتلی سیاستدان کو لگام ڈالنے کی بجائے فری ہینڈ دے کر نئی حکومت کے خلاف چھوڑ دیا۔
بظاہر جرنیلوں کا مقصد ذلت کے اس طوق سے نجات حاصل کرنا تھا جو معاشی تباہی کے نتیجے میں ان کی گردنوں میں پھنسنے والا تھا اور وہ اس میں خاصی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں کیونکہ عوام کی یاداشت بہت کمزور ہوتی ہے اور چند سالوں بعد لوگوں کو یاد بھی نہیں رہے گا کہ معیشت کیسے یا کیوں برباد ہوئی۔ اگر یاد رہے گا تو صرف یہ کہ ملک کس کے دور حکومت میں دیوالیہ ہوا۔ بدنامی کا خطرہ ٹلتے ہی جرنیل نیوٹرل ہو گئے ہیں اور جن سیاستدانوں کو منتیں کر کے لائے تھے انہیں جھوٹے پراپگیبڈے اور افراتفری کا سامنا کرنے کے لیئے تنہا چھوڑ دیا ہے۔ اب دیکھیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اور اس کہانی کا انجام کیا ہوتا ہے۔
واپس کریں