دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ملکی معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے۔جنید ملک
جنید ملک
جنید ملک
اصولی طور پر پاکستان کو تسلیم کر لینا چاہیئے کہ معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے تاکہ مکمل بربادی سے بچا جائے اور تعمیر نو کی طرف جایا جائے۔ ڈیفالٹ سے بچنے کے لیئے جو عوام کو تکلیف دے کر قرضوں قسطیں مسلسل بڑھائی جا رہی ہیں اس سلسلے کو بند کرنا لازمی ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اگلے دو تین سالوں میں یہ ملک تعمیر نو کے قابل بھی نہیں رہے گا۔ میرے سامنے اس وقت وفاقی بجٹ پروپوزل موجود ہے اور اس کا بغور جائزہ لینے کے بعد میں بڑے وثوق کے ساتھ یہ دعوی کر رہا ہوں کہ ملکی معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے. اگر کوئی میرے اس دعوے کو غلط ثابت کرنا چاہے تو اسے میرا کھلا چیلنج ہے کہ موجودہ بجٹ پروپوزل کے اعداد شمار کو استعمال کرتے ہوئے مجھے غلط ثابت کر کے دکھائے۔
پروپوزل کے مطابق ٹیکس آمدن 7000 ارب جبکہ نان ٹیکس آمدن 2000 ارب ہے۔ یعنی کل آمدن 9000 ارب جبکہ اس میں سے 4100 ارب صوبوں کا حصہ دینے کے بعد وفاقی حکومت کے پاس 4900 ارب بچتے ہیں۔ وفاقی بجٹ کے مطابق کل خرچہ 12500 ارب ہے یعنی بجٹ شارٹ فال 7600 ارب بنتا ہے۔ پروپوزل کے مطابق اس فرق کو پورا کرنے کے لیئے لگ بھگ 3600 ارب کا ڈومیسٹک قرضہ اور 3200 ارب کا بیرونی قرضہ لیا جائے گا۔ جبکہ 100 ارب پرائوٹائزیشن سے حاصل کیئے جائیں گے۔ زرا غور کیجیئے کہ آمدن 4900 ارب اور خرچہ 12500 ارب یعنی آمدن سے ڈھائی گنا زیادہ۔ اور اس خرچے کو پورا کرنے کے لیئے آمدن سے ڈیڑھ گنا زائد قرضہ لینا پڑے گا۔
قرضے کی بات کی جائے تو ملک پر اس وقت کل قرضہ 45000 ارب روپے ہے۔ 2018 کے وسط میں یہ قرضہ 25000 ارب تھا جبکہ گزشتہ تین سال میں یعنی نیازی کے دور حکومت میں اس قرضے میں 20000 ارب کا اضافہ ہوا ہے۔ محض تین سال میں کل قرضہ لگ بھگ دوگنا ہوا تو قرضے کی واپسی کی اقساط یعنی ڈیٹ سروسنگ بھی دوگنی ہو گئی ہے۔ یعنی اس سال 3500 ارب روپے ڈومیسٹک قرضے اور 600 ارب روپے غیر ملکی قرضے کی واپسی ہونی ہے۔ کل ملا کر یہ 4100 ارب روپے بنتے ہیں جس میں اصل 3600 ارب جبکہ سود 500 ارب ہے۔ اب زرا غور فرمائیے کہ 3600 ارب کا قرضہ واپس کیا جا رہا ہے جبکہ آمدن سے زائد خرچے پورے کرنے کے لیئے مزید 7000 ارب قرضہ لیا جا رہا ہے۔ یعنی 3400 ارب کا اضافہ جس کے بعد مجموعی قرضہ 45000 ارب سے بڑھ کر 49000 کے لگ بھگ ہو جائے گا۔
اس معاشی اعداد و شمار کا خلاصہ بیان کیا جائے تو وفاقی حکومت کا خرچہ آمدن سے ڈھائی گنا زیادہ ہے جبکہ لیا جانے والا قرضہ واپس کیئے جانے والے قرضے سے دوگنا ہے اور اس حساب سے قرض میں بدستور اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ اگر جمع در جمع یعنی کمپاونڈنگ کو مد نظر رکھا جائے تع اگلے تین سالوں میں مجموعی قرضہ 60000 ارب سے تجاوز کر جائے گا یعنی موجودہ جی ڈی پی سے زیادہ ہو جائے گا جبکہ قرض واپسی کی قسطیں یا ڈیٹ سروسنگ کا خرچہ کل آمدن سے زیادہ ہو جائے گا۔ قسطیں آمدن سے زائد ہونے کی صورت میں ملک ڈیفالٹ کر جائے گا یعنی قرضے کی قسطیں دینے کے قابل نہیں رہے گا۔ اس صورت میں واپسی کے تمام راست بند ہو چکے ہوں گے۔
میرا مقصد آپ کو پریشان یا دکھی کرنا ہرگز نہیں لیکن ان حالات میں اگر معیشت کو دیوالیہ نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟
واپس کریں