جنید ملک
ملک کی سیاسی صورتحال انتہائی پیچیدہ ہے اور اس کی جڑیں صرف ماضی قریب تک نہیں بلکہ ماضی بعید تک جاتی ہیں۔ جنرل ضیاء کے دور میں پروان چڑھی ایک پوری نسل جسے جرنیلی مفاد کی خاطر دانستہ طور پر عقل و شعور سے دور رکھا گیا اس نسل نے اپنی اولادوں کی تربیت کچھ اس طرح کی ہے کہ کہ وہ متضاد خیالات اور فکری منافقت کا مجموعہ بن چکے ہیں۔ ان کو عیاشی بھری زندگی، دولت کی چکا چوند اور دکھاوا بھی پسند ہے لیکن ساتھ ہی مغربی خاصکر امریکی معاشروں کو اخلاق باختہ سمجھتے ہیں۔ ایک طرف برینڈڈ کپڑوں، پرفیومز، گھڑیوں، اعلی گاڑیوں کے شیدائی اور میکڈونلڈز، کے ایف سی وغیرہ میں کھانے پینے کے شوقین ہیں تو دوسری طرف ان آسایشوں کے خالق یعنی مغربی نظام کو گالیاں نکالتے ہیں لیکن پھر امریکہ، یورپ وغیرہ کے ویزوں کے لیئے لائنوں میں بھی لگے نظر آتے ہیں۔ حد درجہ جزباتی اور برداشت کے مادے سے محروم نسل ہے یہ۔
اس نئی نسل کو آگہی اور شعور کہاں سے ملتا جب ان کے والدین ان ادوار کی پیداوار ہیں جب جہاد اور فرقہ واریت کو فروغ دیا جا رہا تھا اور تعلیمی نظام پر مکمل جرنیلی قبضہ تھا۔ اوپر سے ہمارے یہاں سوال اٹھانے یا مطالعہ کرنے کا رواج بھی فروغ نہیں پا سکا۔ اس بے شعوری اور فطری جہالت کے نتیجے میں آج ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ جو نوجوانوں پر مشتمل ہے جرنیلی پراپگینڈے سے شدید متاثر نظر آتا ہے۔ اس پراپگینڈے کے زریعے انہیں تیس سال یہ باور کروایا گیا کہ سیاستدان چور اور سولین حکومتیں نااہل ہیں۔ انہیں یقین دلایا گیا ہے کہ پاکستان کا وجود پوری دنیا کی نظر میں کھٹکتا ہے جبکہ امریکہ، برطانیہ، یورپ وغیرہ ہر وقت پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیں مسلسل بتایا گیا ہے کہ بھارت اور اسرائیل ہمارے ازلی دشمن ہیں اور گاہے بگاہے حسب ضرورت دشمنوں کی اس لسٹ میں افغانستان اور ایران کو بھی شامل کیا جاتا رہا۔ شہروں میں پروان چڑھنے والی اپر مڈل کلاس کے نوجوانوں بشمول سول و فوجی بیوروکریٹس کی اولادوں کو تعلیمی اداروں کے زریعے گمراہ کر کے ایک ایسا ہجوم تیار کیا گیا ہے جسے ذات برادری مزہب، حب الوطنی اور مغرب دشمنی کے نام پر حسب ضرورت آسانی سے استعمال کیا جا سکے۔
دس سال قبل فوج نے ایک پراجیکٹ شروع کیا تھا جس کا مقصد عوام کو باور کروانا تھا کہ موجودہ سیاسی نظام انتہائی بوسیدہ ہو چکا ہے اور اس میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مقصد یہ تھا کہ ایک کٹھپتلی نظام مسلط کر کے قومی وسائل پر مکمل اختیار حاصل کیا جا سکے۔ ایسا اختیار جو مارشل لاء دور میں حاصل ہوتا ہے لیکن عوامی غصے کا براہراست سامنا کرنے کی بجائے سول چہرے آگے کر دیئے جائیں۔ میکاولی کے مسلسل جھوٹ یا گوئبل کے پراپگینڈے کے طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے اس پراجیکٹ کو انتہائی منظم طریقے سے پروان چڑھایا گیا۔ عمران نیازی جو کہ اس سے پہلے ایک ناکام سیاستدان تھا اسے ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا جو ملک میں چور اور کرپٹ سیاستدانوں کا خاتمہ کر کے ملک کو خوشہالی و ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا۔ ضیاء دور میں پروان چڑھے عقل و شعور سے محروم افراد خاصکر فوجی و سول بیوروکریٹس اور متضاد خیالات کی حامل نوجوان نسل اس پراپگینڈے سے شدید متاثر ہوئی۔ بالآخر اس پراجیکٹ کے زریعے ملک کے سیاسی نظام کو لپیٹ دیا گیا اور تبدیلی کے نام پر ایک ہائبرڈ نظام مسلط کر دیا گیا۔
نظام مسلط ہونے تک تو جرنیلی منصوبے نے ٹھیک کام کیا۔ بلکہ دو سال جرنیلی ٹولے نے خوب مزے اڑائے۔ عالمی اداروں سے دبا کر قرضے لیئے گئے جو سیدھے فوج کے پاس گئے۔ زمینوں، کاروباروں کو دبا کر وسعت دی گئی۔ سول اداروں میں دبا کر فوجیوں کو پھرتی کیا گیا۔ تعمیراتی ٹھیکوں پر بھی قبضہ کر لیا گیا۔ پارلیمنٹ کے زریعے مرضی کے قوانین مرتب کیئے گئے۔ مخالفت کو قانونی و غیر قانونی ہر طریقے سے دبایا گیا اور تنقید کو جرم قرار دے دیا گیا۔ لیکن پھر جرنیلوں کو محسوس ہونے لگا کہ جس مہرے کو انہوں نے مسلط کیا ہے وہ محض مہرا نہیں ہے بلکہ نرگسیت کا شکار ایک فاشسٹ، خود پسند اور ضدی شخص ہے جس نے ان کو اپنی باتوں کے جال میں پھنسا کر اقتدار تک رسائی حاصل تو کر لی لیکن اس نے جو خوشہالی کے سہانے خواب دکھائے تھے ان کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔ بلکہ الٹا اپنی نااہلی کے باعث یہ رہا سہا نظام بھی برباد کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ فوج کو اپنی تنخواہوں کے لالے پڑ گئے۔ خارجی سطح پر ملک کو تنہا کرنا اور عالمی برادری میں بدنام کروانا، نوجوانوں کی برین واشنگ، معیشت کی بربادی، اقربا پروری اور مافیاوں کی سرپرستی۔ ان سب کے علاوہ نیازی فوج میں گروہ بندی کا بھی مرتکب ہو رہا تھا اور موجودہ سربراہ کو ہٹا کر اپنے ایک ہمایتی جرنیل کو سربراہ بنانے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ اس موقع پر جرنیلوں کو اندازہ ہوا کہ یہ تجربہ ناکام نہیں بلکہ ہولناک ثابت ہونے والا ہے اور انہیں ہاتھوں کی لگائی گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑیں گی کیونکہ پچھلے دس سال سے جاری پراپگینڈے کا شکار صرف عوام ہی نہیں ہوئی بلکہ فوجی افسران اور ان کی فیملیز بھی ہوئی ہیں اور ان کو راہ راست پر لانا اب اتنا آسان نہیں۔
ہونا یہ چاہیئے تھا کہ فوج کے اس نئے تجربے کے ہاتھوں ڈسے گئے سیاستدان ان معاملات سے دوری اختیار کرتے یوئے تجربہ کرنے والوں کو خود نتائج بھگتنے دیتے لیکن اقتدار کی خواہش رکھنے والے چند جلدباز سیاستدانوں نے آگے بڑھ کر اس گندگی کو پھر سے اپنا لیا جس کے بعد فوج نے خود کو اس معاملے سے باہر نکال کر نیوٹرل ہونے کا دعوی کر دیا اور اپنی غلطیاں سیاستدانوں کے کھاتے ڈال دی ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ نیازی نے بے شعور عوام (جس میں اپر مڈل کلاس، فوجی اور سول بیوروکریٹس اور ان کی اولادیں بھی شامل ہیں) کو یہ تاثر دے کر اپنے ساتھ ملا لیا ہے کہ اسے ہٹانے کے پیچھے امریکی سازش کارفرما ہے اور اس تاثر کے زریعے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ جرنیلوں پر بھی امریکی مہرے ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے بپھرے ہوئے اور شعور سے عاری جزباتی ہجوم کو ان کے پیچھے لگا دیا ہے۔ موجودہ حالات میں جب معیشت بری طرح تباہ ہے اور معاشرہ شدید تقسیم کا شکار ہے شہباز شریف کے لیئے ایک بڑا امتحان ہے۔ اپنا اور اپنی پارٹی کا مستقبل داو پر لگانے کے بعد اگر وہ معیشت کو ٹھیک کرنے اور حالات بہتر کرنے میں ناکام رہا تو بہت زیادہ بربادی ہونی ہے۔
واپس کریں