دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بات سیدھی اور صاف کروں گا۔جنید ملک
جنید ملک
جنید ملک
بات سیدھی اور صاف کروں گا۔ اگر کوئی برا مناتا ہے تو مناتا رہے۔ ۔
اچھا ہے یا برا بہرحال یہ ملک ہمارا ہے اور ہماری آنے والی نسلوں نے یہاں رہنا ہے۔ ہم کوئی فوجی افسران نہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد بچوں سمیت دوسرے ملکوں میں جا کر بس جائیں۔ ہم اس ملک کے شہری ہیں اور ہمارا مستقبل اس سے وابستہ ہے۔ اگر پاکستان کی سیاسی، معاشی یا سیکیورٹی صورتحال خراب ہوتی ہے تو بحیثیت شہری ہم اس سے براہراست متاثر ہوتے ہیں۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ ہم ان معاملات پر سوچ بچار کریں اور مسائل کاحل تلاش کریں۔ بجائے اس کے کہ یہ معاملات جرنیلوں پر چھوڑ دیں اور وہ سب کچھ بگاڑنے کے بعد ریٹائر ہو کر مال سمیٹیں اور غائب ہو جائیں۔

بلوچستان کی صورتحال گزشتہ کئی دھائیوں سے خراب ہے اور اس کی بنیادی وجہ وہاں کے عوام کا احساس محرومی ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کے عوام کا مسلسل استحصال کیا جا رہا ہے، ان کے حق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے اور یہ انہیں قبول نہیں۔ اس مسئلے کا واحد حل سیاسی بات چیت یا معاہدہ ہے لیکن اس معاملے میں سیاستدانوں کو مزاکرات یا فیصلہ سازی کا کبھی موقع ہی نہیں دیا گیا۔ گیس کا معاملہ ہو، معدنیات کا یا قیمتی دھاتوں کا۔ مقامی آبادی سے بالا بالا فیصلے کر لیئے گئے۔ چین کے ساتھ سی پیک کا معاہدہ ہوا تو فوج اور سول حکومتوں نے چند مخصوص سرداروں سے مل کر اپنے طور پر ہی بندر بانٹ کر لی جبکہ مقامی افراد کو پوچھا ہی نہیں گیا۔ گوادر کی زمینوں پر قبضے ہو گئے۔ چینیوں نے اپنی مرضی کی اور فوج نے اپنی پسند کی زمین قابو کر لی۔ آدھے سمندر پر چین نے قبضہ کر لیا تو آدھے پر بحری فوج نے اپنا حق جتا دیا۔
مسئلہ یہ ہے کہ پچھلے ساٹھ سالوں سے بلوچ عوام کو فوجی آپریشنوں کے زریعے دبایا جا رہا ہے۔ شہریوں کو اغوا کیا جاتا ہے جبری طور پر غائب کیا جاتا ہے اور پھر ان کے بیوی بچے ان کی تلاش میں رلتے رہتے ہیں۔ پھر کسی کی لاش مل جاتی ہے تو کسی کا کبھی پتا ہی نہیں چلتا کہ کہاں غائب ہو گیا۔ اور سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ ان جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل میں ملوث افراد کے خلاف کسی بھی عدالت نے کبھی کوئی کاروائی نہیں کی۔ بلکہ کاروائی تو دور کی بات کبھی کسی کی نشاندہی تک نہیں ہو پائی۔ اور پھر جب ظلم و زیادتی سے تنگ آ کر چند بلوچ بندوق اٹھا کر کھڑے ہو جاتے ہیں تو ایک ہی ریکارڈ بار بار بجایا جاتا ہے کہ یہ ملک توڑنے کی سازش ہے اور اس کے پیچھے بھارت ہے وغیرہ وغیرہ۔

جب جرنیل ملک کے مامے چاچے بنیں گے اور ہر مسئلے کا حل فوجی آپریشن کے زریعے تلاش کریں گے تو جوابی کاروائی بھی ہو گی اور کاروائی کرنے والوں کو بیرونی امداد بھی ملے گی۔ تو پھر آخر اس مسئلے کی بنیاد پر توجہ کیوں نہیں دی جا رہی؟ بلوچستان کے عوام سے یا بقول آپکے علیحدگی پسندوں سے سیاستدانوں کے زریعے مزاکرات کیوں نہیں کیئے جا رہے؟ بلوچستان کو صوبائی سطح پر معاشی خودمختاری دینے اور بلوچ عوام کو اپنے وسائل سے استفادہ حاصل کرنے کا موقع کیوں نہیں دیا جا رہا؟

یاد رہے کہ وقت اور حالات تبدیل ہو رہے ہیں اور اب بلوچستان کے مسئلے کا دیرپا سیاسی حل تلاش کرنا بہت ضروری ہو چکا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو علیحدگی پسند تحریک مزید زور پکڑ لے گی اور سی پیک جیسے معاہدے خطرے میں پڑ جائیں گے۔ ملکی معیشت فی الحال اس طرح کے نقصانات برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔
واپس کریں