جنید ملک
سندھ میں ہونے والے حالیہ واقعات کے بارے میں کچھ دوست میرا موقف سننے پر اصرار کر رہے ہیں ان کی خاطر نہ چاہتے ہوئے بھی اس تکلیف دہ موضوع پر بات کر رہا یوں۔ تکلیف دہ اس لیئے کہ میں جب بھی اپنے لوگوں کی غفلت اور جہالت کا ذکر کرتا یوں تو ایک طرف مجھے شدید دکھ ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف میری کھری کھری باتیں سن کر دوست بھی ناراض ہو جاتے ہیں۔ بہرحال میرا موقف پیش خدمت ہے۔
پاکستانی چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتے ہوں انتہائی جزباتی ہوتے ہیں۔ دماغ کے استعمال کی بجائے ہمیشہ جزبات سے سوچتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی مداری کے لیئے محض ایک جزباتی قسم کی تقریر کے زریعے ان لوگوں کو نچانا یا کسی سیاستدان کے لیئے جزباتی دعووں کے زریعے انہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا بہت آسان ہوتا ہے۔ سندھ میں ہونے والے ایک قتل کا رد عمل بھی اسی جزباتیت کی عکاسی کرتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ مسئلہ سندھیوں اور پشتونوں کا ہے ہی نہیں۔ یہ مسئلہ دراصل افغانستان سے لا کر سندھ خاصکر کراچی میں بسائے گئے افغان مہاجرین میں موجود ان عناصر کا ہے جن کی سرپرستی ایجنسیاں کرتی ہیں اور جو ایجنسیوں کی ایما پر بدامنی پھیلاتے ہیں۔ انہی عناصر نے اسی کی دھائی میں سہراب گوٹھ کے گرد و نواح میں قائم اردو سپیکنگ کمیونٹی کی بستیوں میں قتل و غارت گری کر کے کراچی کو لسانی فسادات کی آگ میں جھونکا تھا۔ عقل کا استعمال نہ کرنے والے آج بھی اس معاملے کی وجہ ایک ہوٹل پر ہونے والے قتل کو قرار دے رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے افغان مہاجرین کے بھیس میں موجود طالبوں کی سندھ، خاصکر کراچی میں بدمعاشی و قتل غارت گری کی وجہ سے ایک لاوہ تھا جو اند ہی اندر پکتا رہا تھا اور اب ایک قتل کے بعد اچانک ابل پڑا۔
اصل مجرم اس وقت بھی فوج کی ایجنسیاں اور ان کے لائے گئے افغانی تھے اور آج بھی اصل مجرم وہی ہیں۔ لیکن افسوس کے ان ذمہ داروں کا کہیں کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ یاد رہے کہ لاکھوں افراد کو افغانستان سے لا کر یہاں بسانے والا ایک جرنیل تھا اور اس کے بعد آنے والے جرنیل آج بھی ان مہاجرین کے نام پر ملنے والی عالمی امداد ہڑپ رہے ہیں جبکہ وہ بیچارے مہاجرین بھیک مانگ کر، کچرا چن کر یا چوری چکاری کر کے پیٹ بھرنے پر مجبور ہیں۔ انہیں افغانیوں کے درمیان ایجنسیوں نے اپنے من پسند طالب بھی بسائے ہوئے ہیں جنہیں پاکستانی شناخطی کارڈ بھی بنوا کر دے دیئے گئے ہیں اور منشیات، اسلحے اور قبضہ گیری کا دھندہ کرنے کی چھوٹ بھی۔ انہی افغانیوں سے ضرورت کے وقت کام لیا جاتا ہے۔ اس صورتحال پر سندھیوں اور پشتونوں کے ردعمل کو دیکھا جائے تو میرا دعوی بالکل درست ثابت ہوتا ہے کہ یہ لوگ ذہن کی بجائے جزبات سے سوچتے ہیں۔ کسی سندھی نے افغان مہاجرین اور ان کو سندھ میں بسانے والوں کے خلاف کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا بلکہ الٹا خیبر پختون اور خاصکر قبائلی علاقوں کے پشتونوں پر لٹھ لے کر چڑھ گئے۔ دوسری طرف کسی پاکستانی پشتون نے ایجنسیوں کی ایما پر فساد ڈالنے والے افغان مہاجرین سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس مسئلے کو سندھی پشتون لڑائی قرار دے دیا۔ یہاں تک کہ پی ٹی ایم کے لیڈر منظور پشتین نے بھی اس مسئلے پر بیان دیتے ہوئے ان افغان مہاجرین سے لاتعلقی ظاہر نہیں کی جو ہمیشہ فساد کا باعث بنتے رہے ہیں۔ دوسری طرف ایجنسیوں کے گھناونے کھیل پر احتجاج کرنے کی بجائے لوگ آپس میں لڑ رہے ہیں اور اصل فسادیوں یعنی افغان مہاجرین کے درمیان موجود طالب عناصر کے خلاف کوئی بات ہی نہیں کر رہا۔ کوئی یہ سوال بھی نہیں اٹھا رہا کہ تباہ شدہ معیشت کے ساتھ ہم ان مہاجرین کا بوجھ کب تک اٹھائیں گے۔
اگر ہمارے لوگوں نے دماغ کا استعمال نہ کیا اور فساد کی جڑ کے خلاف کھڑے نہ ہوئے تو مستقبل میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اور سندھی، مہاجر، پنجابی، بلوچ اسی طرح ایک دوسرے سے لڑتے رہیں گے۔
نوٹ: میری افغانوں یا افغان مہاجرین سے کوئی دشمنی نہیں اور نہ میرا مقصد چند عناصر کی وجہ سے تمام مہاجرین کو برا قرار دینا ہے۔ میرا موقف محض اتنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پشتون قوم پاکستانی اور افغانی میں تفریق کرے تاکہ افغانوں کے جرم کا الزام پشتونوں پر نہ لگے۔ مزید یہ کہ مہاجرین کو اپنے ملک واپس بھیجنا چاہیئے کیوں کہ ہماری معیشت اب مزید ان کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔
واپس کریں